فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے درمیان برسلز کے دورے کے دوران ایک تقریب میں تبادلۂ خیال کو انٹرویو سمجھ کر آئی ایس پی آر کے سربراہ نے نہ صرف اسکی تردید کی بلکہ سہیل وڑائچ کے کالم کے مندر جات کو بھی غلط قرار دیا ، گو جن باتوں کی تردید کی گئی ہے انکا کالم میں کوئی ذکر نہیں ہے مگر میڈیا کی خبروں کے بعد اب لکتا ہے یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے،سنا ہے کہ “اسٹبلشمنٹ “کا دبا ہے کہ صحافی سہیل وڑائچ کو جنگ اخبار سے فارغ اور جیو ٹی وی سے آف ایئر کرنے کے لئے شائید کوئی دبا ہے ، گو آزاد زرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ، مگر سہیل وڑائچ سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے ا،صورتحال بہت دلچسپ اور گھمیر ہے ، ماضی میں جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو ان پر تنقید کرنے والے کئی سرکردہ صحافیوں بشمول جنگ گروپ کے ایڈیٹر کو بھی فارغ کر نے کے لئے ، مسلم لیگ کی حکومت نے ، سینیٹر سیف الررحمن کے ذریعے دبا ڈالا تھا ، آج پھر ویسی ہی صورتحال ہے جیسی اس وقت کی سیاسی اور بعد میں فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف مرحوم کے دور میں تھی جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد میڈیا پر اسٹبلشمنٹ کا بھر پور دبا تھاآج پھر مسلم لیک ن کی حکومت ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف کا پھر امتحان ہے ، ایک طرف طاقتور “اسٹبلشمنٹ “ہے اور دوسری طرف بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے “بلوآئٹ “صحافی سہیل وڑائچ ، مگر سب کو معلوم ہے کہ طاقت ور کون ہے ؟اور اس وقت “ڈیفکٹو” حکمراں کون ہے ، یا یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس وقت طاقت کی محور شخصیت کم از کم وزیر اعظم نہیں ہیں ؟سب جانتے ہیں کہ اصل طاقتور شخصیت نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو سرخرو کیاوہ ملک کی سلامتی اور ترقی کے لئے کس قدر کوشاں ہیں یہ سب کو معلوم ہے ، شائید حکومت اسی لئے وہ ہر منفی آواز کو طاقتور نئے پیکا ایکٹ قانون کے زریعے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ، بس فرق صرف اتنا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف جن سے ناراض ہوتے تھے انہیں سینیٹر سیف الرحمن اور سینیٹر مشاھد حسین سید کے زریعے پیغام دلواتے تھے ،جنرل پرویز مشرف مرحوم ، شیخ رشید احمد اور اس وقت کے ڈپٹی آئی ایس آئی چیف کے زریعے پیغام دیتے تھے ، سابق وزیر اعظم عمران خان بھی میڈیا یا انکی حکومت پر تنقید کرنے والوں کو سخت پیغام سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے زریعے بھجواتے تھے ، اور وہ اس معاملہ میں بہت سفاک مشہور تھے ، مگر آج انہیں ماضی کے جرائم پر فیلڈ کورٹ مارشل کا سامنا ہے ، اسے کہتے ہیں مکافات عمل، اب آج کے” اصل حکمرانوں نے “2025 میں ، یہ فرائض ، وزیر داخلہ اور ایک طاقتور سینیٹر کے سپرد کر رکھے ہیں ، وہ یہ فریضہ ان دنوں بہ خیر خوبی انجام دے رہے ہیں ، خدا خیر کرے، کیونکہ “وقت ایک سا نہیں رہتا ” کیلنڈر میں ماہ سال تبدیل ہونے کا علم کسی حکمران کو نہیں ہوتا ۔
٭٭٭













