”پاکستانی صحافت گرداب میں ”

0
61

سرکاری گرانٹ اور فنڈز صرف پریس کلب کو ملنا چاہئیں، ایک کیمرہ مین کی شریان پھٹنے سے موت اور دوسرے کیمرہ مین کا تنگ دستی کی وجہ سے بیوی کو قتل کر دینا الارمنگ ہے ، اگر صحافی آنے والے دنوں میں زندہ اور اپنے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں تو تمام صحافتی تنظیوں اور مختلف بیٹ رپورٹرز کی تنظیوں کو غیر فعال کرکے ،صرف ایک پلیٹ فام پر جمع ہوجائیں تو شائید آپ کے مرنے کے بعد آپ کا خاندان دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھائے گا؟اگر صحافتی تنظیمیں اور پریس کلب ، حکومت سے ملنے والی امدادی رقم بلا تخصیص کہ مرنے والا صحافی کس گروپ ؟ کس یو کے ؟ کا ممبر ہے تو آپ کو اپنے بچھڑنے والے صحافی دوستوں کے اہل خانہ کی خبر گیری کے لئے ، چینل اور اخباری مالکان کی منت سماجت نہیں کرنا پڑے گی، ساتھ ہی اکابرین صحافت ، حکومت سے درخواست کریں کہ گرانٹ اور ہر قسم کی امداد صرف اور صرف پریس کلب کو دی جائے ، چھوٹے چھوٹے گروپوں اور مختلف بیٹس کے نام پر بننے والی تنظیموں کی مالی امداد فوری طور پر بند کردینا چاہئے ،اس وقت صحافت کا پیشہ شدید لسانی گرداب میں ہے، دیگر پریس کلبوں کا احوال تو مجھے نہیں معلوم ؟ مگر کراچی میں ہر زبان رنگ نسل کے لوگ آباد ہیں اسی لئے کراچی پریس کلب میں، سندھی ، مہاجر، پنجابی، بلوچی، پختون ، کشمیری سب شاخ سے تعلق رکھنے والے ممبر ہیں ،مگر ان سب کے درمیان تنا واور کشمکش صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ میری آبزر ویشن غلط ہو، اور ویسے بھی ملک کی مجموعی صورتحال اور معاشرے میں پھیلی ہوئی گھٹن کا شاخسانہ ہو ، مگر سب کے درمیان عدم برداشت کے ساتھ مکالمہ کا فقدان ہے ، ہر شخص سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور ایک دوسرے کے گندے کپڑے چورانے اور اتارنے پر فخر محسوس کرتا ہے ،مفاد پرست ، انا پرست صحافتی رہنمائوں کے مفاد پر اس کوشش کی کامیابی سے زد ضرور پڑے گی، منفی تبصرے بھی ہونگے، پریس کلبوں میں چائے کی ٹیبل پر گپ لگا کر سوشل میڈیا پر ایک دو جذباتی پوسٹ ڈال کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے گروپ کی سیاسی ذمہ داری پوری ہو گئی،واضع رہے میری پوسٹ کے مخاطب تمام صحافتی تنظیوں گے گروپ ہیں ،تلاش کریں آپ کے ارد گرد کلب میں اور آفس میں ایسے کئی سفید پوش صحافی ہونگے ، جنہیں آپ کی اخلاقی اور سرکار سے کروڑوں کے فنڈز لینے والی تنظموں کی مدر درکار ہوگی ، انکی مدد کریں مگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ کسی صحافی کی عزت نفس مجروح نہ ہو ،پھر وضاحت کردوں کہ اس میں نہ میرا کوئی مفاد ہے ، اور نہ کوئی سیاسی ایجنڈا ، بس کسی اور صحافی کے مرنے سے قبل ، ٹھنڈے دل دماغ سے غور کریں ، زرا سوچئے!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here