جنرل ضیا نے 90دن میں الیکشن کروانے کے وعدے پر حکومت پر شب خون مارا تھا مگر الیکشن نہ کروائے توانیس سو اکاسی میں ایم آر ڈی نے جنرل ضیا کے خلاف جیل بھرو تحریک شروع کر دی جو ناکام ہوئی، سیاسی پارٹیوں کے اکٹھ ایم آر ڈی نے انیس سو چھیاسی میں دوبارہ سے جیل بھرو تحریک شروع کی، گرفتاریاں بھی دی گئیں مگر تحریک ناکام ہوئی وہ تو طیارہ ہوا میں پھٹ جانے کی وجہ سے انیس سو اٹھاسی میں الیکشن ممکن ہوئے، دو ہزار چار میں جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور حکومت میں ایک دفعہ پھر متحدہ مجلس عمل کے قاضی حسین احمد نے کوشش کی مگر وہ صرف دھمکی ہی لگا سکے، دوہزار سات میں ایک دفعہ پھر جب جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مختلف جماعتوں کے سو سے زائد لیڈر گرفتار کر لئے گئے جس کے جواب میں جیل بھرو تحریک شروع کی گئی مگر ٹھس ہو گئی ۔دو ہزار اٹھارہ میں تحریک لبیک نے بھی اپنے کارکنوں کی شہادت کے ازالے کے لیے دھمکی لگائی تھی کہ وہ جیل بھرو تحریک شروع کر دیں گے مگر نہ ہوئی اسی طرح سے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بائیس فروری کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بے جا گرفتاریوں کے احتجاج میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا ہے تو کیا عمران خان کی جیل بھرو تحریک کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا جیسا پچھلی تمام تحریکوں کا ہوا، پہلے تمام جماعتوں نے مل کر ایسی تحریکیں چلاتی تھیں ،ایک دوسرے سے چھپ چھپا کر فوجی آمروں سے معاملات طے کر لیے جاتے تھے مگر اس دفعہ معاملہ مختلف ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے کال دی ہے جس کے چاروں صوبوں میں متحرک کارکن ہیں جو انفارمیشن کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں جہاں کمیونیکیشن پلک جھپکتے میں ممکن ہے، لسٹیں بنا لی گئی ہیں ،مرحلہ وار گرفتاریاں دی جائیں گی اور گرفتاری دینے والے کارکنوں کے گھر والوں کی ہر طرح سے امداد بھی کی جائے گی اگر بیس سے پچیس ہزار کارکن بھی گرفتاری دے دیتے ہیں تو حکومت بوکھلا جائے گی کہ ان کے پاس پہلے ہی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے ،اوپر سے فنڈز کی کمی، آئی ایم ایف کا دبائو، سیاسی افراتفری، دیکھا جائے تو آئین میں نوے دن کے اندر اندر الیکشن کروانے کی مجبوری جس کو ٹالنا آئین سے انحراف کے مترادف ہوگا جبکہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے ،جیل بھرو تحریک حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی کہ مقصد تو حکومت پر دبا ڈالنا ہی ہے۔
٭٭٭