ماریا کورینا مچادو نے امن کا نوبیل انعام وینزویلا کے عوام اور ٹرمپ کے نام کردیا

0
116

واشنگٹن (پاکستان نیوز)وینزویلا کی جمہوریت پسند اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچادو نے امن کا نوبیل انعام وینزویلا کے عوام اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کردیا۔ماریا کوریا مچادو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر انگریزی میں پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ وینزویلا کے تمام عوام کی جدوجہد کا اعتراف ہے، یہ ہماری مہم کو اس کے آخری مرحلے، یعنی آزادی تک پہنچانے کے لیے ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم فتح کی دہلیز پر کھڑے ہیں، اور آج پہلے سے کہیں زیادہ، ہمیں صدر ٹرمپ، امریکا کے عوام، لاطینی امریکا کی اقوام اور دنیا کی جمہوری ریاستوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، جو آزادی اور جمہوریت کے قیام کے لیے ہمارے اصل اتحادی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں یہ انعام وینزویلا کے مصیبت زدہ عوام اور صدر ٹرمپ کے نام کرتی ہوں جنہوں نے ہماری جدوجہد میں فیصلہ کن کردار ادا کیا’۔ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبیل انعام کمیٹی کے چیئرمین یوئرگن واٹنے فریدنس نے گزشتہ روز ماریا کورنیا مچادو کے لیے نوبیل امن انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ‘انہیں وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے فروغ کے لیے انتھک جدوجہد اور آمریت سے جمہوریت کی جانب پرامن اور منصفانہ انتقالِ اقتدار کی کوششوں’ پر یہ انعام دیا جا رہا ہے۔رواں سال ٹائم میگزین کی ‘دنیا کی 100 بااثر شخصیات’ کی فہرست میں شامل ماریا کورینا ماچادو کے بارے میں موجودہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ وہ ‘استقامت، ثابت قدمی اور حب الوطنی کی علامت’ ہیں۔گزشتہ سال یہ باوقار انعام جاپان کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف سرگرم تنظیم ‘نیہون ہیدانکیو’ کو دیا گیا تھا، جو ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں سے بچ جانے والوں کی ایک عوامی تحریک ہے۔نوبیل انعام کے ساتھ ایک سونے کا تمغہ، ایک ڈپلومہ اور 12 لاکھ ڈالر کی رقم شامل ہے، ایوارڈ کی تقریب 10 دسمبر کو اوسلو میں منعقد ہوگی، جو انعام کے بانی سویڈش موجد اور سماجی کارکن الفریڈ نوبیل کی 1896 میں وفات کی برسی ہے۔نوبیل انعامات میں سے امن کا انعام واحد ہے جو اوسلو میں دیا جاتا ہے، جبکہ دیگر شعبوں کے انعامات اسٹاک ہوم میں پیش کیے جاتے ہیں۔ابھی یہ واضح نہیں کہ ماریا کورینا مچادو تقریب میں شرکت کر سکیں گی یا نہیں، اگر وہ شرکت نہ کر سکیں تو وہ ان شخصیات کی فہرست میں شامل ہو جائیں گی جو نوبیل امن انعام حاصل کرنے کے باوجود تقریب میں شریک نہ ہو سکیں، جن میں 1975 میں سوویت ڈِسِیڈنٹ آندرے سخاروف، 1983 میں پولینڈ کے لیخ ویلسا اور 1991 میں میانمار کی آنگ سان سوچی شامل ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here