International Thermonuclear Experimental Reactor نامی آرگنائزیشن فرانس میں سو ایکڑ پر ایٹمی بجلی گھر شرو ع کیا،یہ پراجیکٹ انسان کی بجلی کے بڑھتی ہوئی ضرورتیں پورے کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ یہ ری ایکٹر بیس منزلہ عمارت سے بھی اونچا ہوگا اور آج تک انسان نے جتنی بھی مشینیں بنائی ہیں، ان میں سے یہ مشین سب سے زیادہ پیچیدہ ہوںگی۔ اپنی پیدائش سے لیکر آج تک اس سے زیادہ مشکل کام انسان نے کبھی نہیں کیا بلکہ یوں کہہ لیں کہ آج تک انسان نے جتنی مشینیں بنائی ہیں ان ساروں کی پیچیدگی ایک طرف اور اس ایک پراجیکٹ کی پیچیدگی ایک طرف ہے۔37ملک اس ریسرچ میں حصہ دار ہیں جن میں یورپین یونین، روس، جاپان، شمالی کوریا، یو ایس اے، چین اور ہندوستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا اور قازقستان اگرچہ اس کے ممبر نہیں ہیں مگر ان کا اس ریسرچ ادارے کے ساتھ ٹیکنیکل کوآپریشن کا معاہدہ ہے۔اس ری ایکٹر پر تقریبا دو ہزار سائنسدان دن رات کام کر رہے ہیں جن کا تعلق ان 37 ملکوں سے ہے۔ یہ ملک ہی اس پراجیکٹ کے لئے سرمایہ بھی مہیا کر رہے ہیں اگر یہ پراجیکٹ کامیاب ہوگیا تو ظاہر ہے اس کا سب سے زیادہ فائدہ انہیں ملکوں کو ہوگا۔ بد نصیبی سے پاکستان یا کوئی اور اسلامی ملک اس پراجیکٹ کا حصہ نہیں ہے۔یہاں وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہائیڈروجن کی جوہری فیوژن سے انرجی پیدا کرکے اسے بجلی میں تبدیل کر سکیں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے کہ ہمارا سورج انرجی پیدا کرتا ہے۔ سورج پر 270 ملین ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت پر ہائیڈروجن کے چار ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ(مدغم)ہو جاتے ہیں اور ایک ہیلیئم کا ایٹم وجود میں آتا ہے مگر چار ہائیڈروجن کے ایٹمز میں سے اس عمل میں کچھ مادہ بچ جاتا ہے(کیونکہ ایک ہیلم کے ایٹم کی کمیت چار ہائیڈروجن ایٹمز سے ذرا کم ہوتی ہے)اور یہ مادہ انرجی میں تبدیل ہوجاتا ہے یہی بچا ہوا مادہ سورج کو توانائی بخشتا ہے جو ہم تک روشنی اور حرارت کی شکل میں پہنچتی ہے اور زمین پر ساری زندہ مخلوقات کو طاقت مہیا کرتی ہے۔سائنسدانوں نے سوچا کہ اگر ہم زمین پر ایک چھوٹا سا سورج بنا لیں اور ہائیڈروجن کو استعمال کرکے انرجی بنا سکیں تو ہماری ہزاروں سال کی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ پھر ہمیں بجلی بنانے کے لئے کوئلے، تیل، پانی اور نیوکلئیر ری ایکٹرز کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور ہمارے ماحول کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ یہ بجلی بے حد سستی بھی ہوگی اور گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد گار ہوگی مگر ظاہر ہے کہ سب سے پہلے اس کا فائدہ یہی 37 ممالک اٹھائیں گے جنہوں نے اس پراجیکٹ پر پیسہ لگایا ہے اور سائنسدان بھیجے ہیں۔ظاہر بھیک پر گزارہ کرنے والے اور صرف مذہبی نعرے لگانے والے ممالک تو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پھر ان ملکوں کو بجلی ان 37 ملکوں سے ہی خریدنی پڑے گی۔دعا کریں کہ کافروں کا یہ پراجیکٹ بری طرح ناکام ہو جائے۔ (ہم اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔)سائنس اگر ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیا ہوا۔ کیا ہمارا خدا اتنا کمزور ہے کہ وہ ہماری بددعائیں قبول نہیں کرے گا اور کافروں کے اس پراجیکٹ کو کامیاب ہونے دے گا؟ چلیں اب سارے مسلمان جلدی جلدی ہاتھ اٹھائیں۔ میری طرف سے پہلے ہی آمین۔
٭٭٭












