پاکستان دنیا میں ایک مضبوط معاشی طاقت بن کر اُبھر رہا ہے، پاکستانی سمندر سے ایک سو ٹریلین کیوب فٹ (LNG) گیس اور چودہ ارب بیرل تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جوسمندر کے اندر تیس بلاکس کو identifyکیا گیا ہے جہاں چون ہزار مربع میٹر کا علاقہ جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اسکی ڈرلنگ کا کام بہت جلد شروع ہوگا ۔ امریکن اور ترک کمپنیاں اس پراجیکٹ کو تین سال میں مکمل کرلیں گی۔ پاکستانی کمپنیاں اور انجنئیرز ، مارننگ انجینئرنگ، پی پی ایل ،او جی ڈی ایل بھی اس کام میں معاونت کرینگی۔ گزشتہ روز تربیلہ ڈیم کے علاقہ سے 660بلین ڈالرز کے سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ سونا نکالنے کا یہ پرجیکٹ انتہائی مشکل کام ہے۔ صرف ہالینڈ کے پاس اس کی مہارت ہے۔ ریکوڈک میں سونے کے بھاری ذخائر موجود ہیں۔ الحمدللہ پاکستان میں سونا، کاپر ، قدرتی گیس ، تیل اور بیش بہا معدنیات کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ یہ نعمتیں مملکت خداداد پر اللہ کا احسان اور بزرگوں کی قربانیوں کا صلہ ہیں۔ پاکستان سر کریک کے پاس بہت بڑا جدید طرز کا فوجی اڈہ تعمیر کررہا ہیں۔ قومی سلامتی کے پیش نظر ایک جدید قسم کی آبدوز بنائی جارہی ہے جو چھ ہزار فٹ انڈر واٹر معدنیات کی تلاش کرے گی اور ملکی سلامتی کی ضامن بھی ہوگی۔ پاکستان پر مالک کائنات بہت مہربان ہے۔ مملکت خداداد میں ایماندار اور دیانتدار حکمرانوں کو ضرورت ہے۔ جو قدرت کی عنایات سے فائدہ اُٹھاسکیں ۔ بھارت سے جنگ میں فتح کے بعد اللہ جل شانہ نے پاکستان کو دنیا میں نمایاں مقام عطا کیا ہیں۔ بھارت اپنی شکست کا بدلہ لینے کی کئی کوششیں کر چکا ہیں۔ جسے پاکستانی فورسز نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے جنگ کے بادل منڈلا رہے بیں۔ اندرونی حالات بھی اچھے نہیں ۔ سیاسی افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت اور اسٹبلشمنٹ میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ تین سال سے پی ٹی آئی احتجاجی سیاست کررہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اسے دبانے کے لئے ہر قسم کا غیر فطری حربہ استعمال کرچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں مفادات کی جنگ میں اُلجھی ہیں۔ دشمن جنگی مشقیں اور دھمکیاں دے رہا ہیں۔ بھارت اور امریکہ کا دس سالہ دفاعی معاہدہ طے پایا ہیں۔ بھارت سمندر سے پاکستانی پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہم ہر محاذ پر چوکنا ہیں۔ دشمن کی کسی بھی جارحیت کا جواب پہلے س دوگنا ہوگا۔ جسے بھارت یاد رکھے گا۔ امریکہ اور بھارت کے دفاعی معاہدہ پر صدر ٹرمپ کو نوبل انعام تجویز کرنے والے اب اس معاہدہ پر کیا سوچتے ہیں ؟ صدر ٹرمپ کی فیلڈ مارشل اور شہباز شریف کی تعریفوں کا رزلٹ معاہدہ کی شکل میں سامنے آیا ہیں۔ پینٹاگان کے چیف اور بھارت کے وزیر دفاع کے درمیان ملائشیا میں دفاعی ایگریمنٹ سائن ہوچکا ہے۔ اس معاہدہ میں اسرائیل کا اہم کردار ہے۔ امریکہ بھارت کو انٹیلی جنس شیئرنگ کرے گا، جدید ٹیکنالوجی فراہم کرے گا، امریکی واچ ڈاگ کا کام کرے گا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان زیر زمین نیوکلئیر ٹیسٹ کررہا ہے۔ اس بیان پر انڈین میڈیا نے سر آسمان پر اٹھا لیا ہیں، بھارت اور امریکہ کا دفاعی معاہدہ بظاہر چین کے خلافہے۔ مگر یہ پاکستان کے خلاف حصار اور سازشوں کا جال بچھایا جارہا ہیں۔ بھارتی قیادت نے جنگی ماحول بنادیا ہیں۔ بھارت کے اس اگریشن کے پیچھے شیطانی مقاصد ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان اور چین پر نظر رکھے گا۔ امریکہ اپنے مفادات مدنظر رکھتاہے۔ جو سپر پاور کے ذعم میں مبتلا ہیں۔ امریکہ اسرائیل اور بھارت کا دوست ہے۔ اسرائیل بھارت کو بڑے پیمانے پر میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے۔ خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغان بارڈر پر شدید تنائو ہیں۔ بھارت جنگی مشقیں کر رہا ہیں۔ پاکستان کے دونوں اطراف فوجیوں سرحدوں پر تیار کھڑی ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں نے بھی تلواریں میان سے نکال رکھی ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی ایسی جماعت نہیں جو ملکی دفاع اور عوامی ایشوز پر بات کرتی ہو۔ جماعت اسلامی پورے پاکستان میں بیس لاکھ نوجوانوں کو ایک سال میں آئی ٹی کورسیز کروا رہی ہیں۔ تاکہ ھمارے بچے اور بچیاں ملک ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ ایک دوست کا کہا ہے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ۔ بنوقابل جیسا پروجیکٹ تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں، مگر یہ حکومتی سطح پر لیپ ٹاپ تقسیم کردینے ۔ گوگل کا آفس کھولنے کے لئے بات چیت کر لیتے، ان کی تعریفیں ہی تعریفیں مگر جماعت اسلامی تعلیمی انقلاب بپا کر دے تو بھی موت جیسا سناٹا، یعنی ان لکھاری اور اینکروں کو تعریف کرنا آتا ہے بس وہ کام جماعت اسلامی کی طرف سے نہیں ہونا چاہئے، اصل چڑ جماعت اسلامی سے ہے، بنو قابل بہت بڑا منصوبہ ہے، یہ صرف دو درجن کورسز کروانے کا پروگرام نہیں ہے حالانکہ اتنا کام بھی بہت بڑے نتائج دینا شروع ہو گیا ہے، جب چترال کی بیٹی کہتی ہے میں گھر بیٹھے ملٹی نیشنل کمپنی کے لئے کام کرنے کے قابل ہو چکی ہوں، لاہور میں بیٹھا نوجوان کہتا ہے ہم ویب سائیڈ بنا کر پروجیکٹس بنا رہے ہیں، کوئی ہائوس وائف کہتی گھر سے ای کامرس کا کورس کرکے کام شروع کر دیا، ہر نوجوان اس شدید مہنگائی میں سرکاری نوکریوں اور سفارشوں میں ذلیل ہونے کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہو رہا ہے یہ انقلاب نہیں تو کیا ہے؟
حافظ نعیم صاحب نے اعلان کیا ہے ہم کورسز کرنے والے بچوں کو تنہا نہ چھوڑیں گے ملک اور بیرون ملک کی سینکڑوں کمپنیوں کو اس پراجیکٹ کے پیچھے لا کھڑا کیا ہے کمپنیاں ٹیلنٹ ہنٹ کر رہی ہیں، لاہور کی تقریب میں بیشمار طلبہ کو ان کمپنیوں نے جابز بھی دے ڈالی ہیں، اسکے بعد حافط صاحب کے مطابق ڈکری پروگرام کی طرف بڑھ رہیے ہیں۔ یہی دنیا کا مستقبل ہے اور پاکستانی نوجوان کو اس سے منسلک کرنا ہی ہدف ہے۔ مگر یہ سارا منصوبہ لکھاریوں، دانشوروں ، اینکروں، یوٹیوبرز کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے اس پروجیکٹ میں کہیں بھی گالی ، گولی ، دھمکیاں، سڑکوں پر گھسیٹنے، پینٹ گیلی کرنے، وکٹیں گرانے جیسی باتیں نہیں ہو رہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو ہر ایشوز پر بات کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی، تحریک لبیک اور کبھی مولانا فضل الرحمن اپنے ورکرز کو سڑکوں پر لاتے ہیں۔ ان پارٹیوں کے ہاں نوجوان نسل کے لئے کوئی اصلاحی اور فلاحی پروگرام ہے اور نہ ہی انکی ایسی اپروچ ہے۔ جس سے عوام کی بھلائی ہو۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کا ایک آئین اور قانون ہیں۔ نہ آئین پر عمل ہوتا ہے اور نہ ہی قانون پر ۔ قانون کے رکھوالے اور سیاسی کارکنان اپنی حدود سے متجاوز ہیں۔ حکمران مذہبی جماعتوں پر تو فورا ہاتھ ڈالتے ہیں۔ لیکن سیکولرز عناصر کی مذہب کے خلاف سازشوں، بکواسیات پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔ انہیں کبھی عورت مارچ کے نام پر ۔ کبھی مذہبی آزادی کے نام پر ۔ اور کبھی قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دیکر عوام کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے۔ قانون پر عملداری نہ ہونے کی وجہ سے مذہب مخالف طبقوں کی بیہودگیوں کے بنا پر مذہبی طبقہ میں غم وغصہ پیدا ہوتا ہیں۔ جس کا شاخسانہ ریاست سے ٹکرا کی شکل اختیار کرتا ہیں۔ جب بھی کوئی فتنہ سر اٹھاتاہے۔ یا ریاست اسکے پیچھے ہوتی ہے یا ضامنی اختیار کرتی ہیں۔ ریاست کی خاموشی کی وجہ سے لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ ہر چند سال بعد کبھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ہیں۔ جسے انتظامیہ طاقت سے دبانے کی کوشش میں معاملات بگاڑتی ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں مذہبی کارکنان پر تشدد گولیوں شکل میں نظر آتی ہیں۔ مذہبی اور سیاسی رہنماں میں اب نہ تو کوئی شاہ احمد نورانی ہیں۔ نہ قاضی حسین احمد۔ نا نوابزادہ نصراللہ ہیں اور نہ ہی مولانا عبدالستار نیازی ۔ نہ پروفیسر غفور اور مفتی محمود جیسی قد آور شخصیات ۔ جو ان مشکلات میں معاملہ فہمی کی ادراک رکھتی ہوں۔ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ لیکن ریاست، سیاست اور مذہب کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا اختیار بھی کسی کو نہیں ہونا چاہئے۔ اور نہ ہی کسی فرد کو قتل کرنے کا اختیار۔ مذہب میں منفی رجحان لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں دیوبندی اور شیعہ مسالک میں اسلحہ بردار گروپس ۔ جنہوں نے ماضی میں قتل و غارت گیری مچائے رکھی ۔ اب یہء بیڑا اہل سنت بریلوی مسلک کے چند گروپس نے اٹھا لیا ہیں۔ اہل سنت نے کبھی بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا تھا اور نہ ہی تشدد پر یقین رکھتی تھی۔ ہمیشہ ریاست کی یس مین تنظیم رہی ہیں۔ لیکن اب اس میں بھی سختی اور متشدد ذہنیت کا غالب آچکی ہے۔ جو ریاست کو قبول نہیں۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست میں بیٹہے کرپٹ عناصرز کو مذہبی معاملات میں دخل کا اختیار دیا جاسکتا ہیں۔ ؟پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ لیکن شروع دن سے ہی مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کے قریب رہیں ۔ چونکہ ملک میں سیکولر طبقہ چونکہ زور پکڑ چکاہے۔ اسلئے مذہبی طبقات کے جذبات کابرانگیختہ ہونا فطری عمل ہے۔ ریاست ہو یا سیاست ۔ ان میں Tolerance کا ہونا ملکی مفاد میں ہیں۔ تشدد اور منفیعت معاشرہ کیلئے ہمیشہ نقصان دہ ہوا کرتی ہیں۔
قارئین!۔ معاشروں کی تعمیر اعتدال اور رواداری سے ہی ممکن ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی اناں کو چھوڑ کر ملکی سلامتی کے لئے ایک ٹیبل پر بیٹھنا حالات کا متقاضی ہے۔ سب کو ذاتی مفادات کی قربانی دینا ہوگی۔ تاکہ نوجوان نسل کی رہنمائی کی جاسکے۔ نوجوان نسل مذہبی تفریقات کی وجہ سے کنفیوژ ہیں۔ معاشی حالات کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ ملک میں معاشی بدحالی، مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن نے فرسٹریشن میں مبتلا کررکھا ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو وہ عوام کوایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ طاقت کا ذعم ریاستی اداروں میں ہو یاکسی مذہبی یا سیاسی جماعت میں ۔ اسکے نتائج اچھے نہیں ہوا کرتے۔ ریاستی جنونیت ہو یا سیاسی جنونیت ۔ یا مذہبی جنونیت ۔ اس میں نقصان ہم سب کا ہیں۔ مذہبی اور سیاسی رہنماں کو نوجوانوں کی تربیتی ورکشاپس کی ضرورت ہیں۔ وفاقی ادراروں کو پولیس اور انتظامیہ کی تربیت کی ضرورت ہیں۔ تشدد پولیس کیطرف سے ہو یا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی طرف سے نامناسب ہے۔ جس کا نقصان بہرحال ریاست کو اٹھاناپڑتا ہے۔ آج چار نومبر کو نیویارک میں مئیر کا الیکشن ہیں۔ جس میں نوجوان مسلم ظہران ممدانی کی بھاری اکثریت سے جیت متوقع ہے۔ صدر ٹرمپ نے نیویارک کی عوام سے ریپبلکن کی بجائے آزاد امیدوار سابق گورنر اینڈریو کومو کو ووٹ دینے کا کہاہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ممدانی کے جیتنے کی صورت میں نیویارک کو فنڈ نہیں دینگے۔ نیویارک میں امریکی تاریخ کا انتہائی اہم الیکشن ہیں۔ ایک طرف آزاد امیدوار معروف سیاسی راہنما سابق گورنر کومو اور ریپلیکن کر ٹس سلوا ہیں۔ جسے ظہران ممدانی نے چاروں شانے چت کردیا ہے۔ کمئونٹی جو ظہران ممدانی کی جیت پر ایدوانس مبارکباد ۔ یاد رہے ! یہ امریکی نظام کی خوبصورتی ہے کہ اتنے ٹف الیکشن میں نہ کوئی گملہ ٹوٹا نہ کوئی سر پھٹا ۔ یہ جمہوریت کا حسن اورڈیموکریٹک سوسائیٹی کی مضبوطی کی علامت ہیں۔ پاکستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ، رواداری اور اصلاح کی ضرورت ہیں۔ تاکہ ملک اصلاحی اور فلاحی مملکت کی طرف سفر کا آغاز کرے ۔ اللہ رب العزت وطن عزیز کی خفاظت فرمائے اور دیار غیر میں رہنے والوں کو ہر جگہ کامیاب فرمائے اور مخفوظ فرمائے(آمین)۔
٭٭٭














