ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر بن گئے ! !!

0
41
کامل احمر

پچھلے ٤ نومبر کو امریکہ میں مختلف عہدوں کے لئے الیکشن زور وشور سے ہوئے تھے اور آج ہم یقین سے لکھ سکتے ہیں کہ ممدانی نیویارک سٹی کے بڑی آبادی والے (ساڑھے آٹھ ملین) شہر کے میئر بن چکے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی پہلے سے پیشن گوئی کر دے لیکن ممدانی نے جس انداز سے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کیا جو بڑھتے بڑھتے 85فیصد نیویارکر کی پسند بنانا قابل اعتبار ہے۔ اس معاملے میں وہ بہت خوش قسمت بھی رہے کہ شروع ہی میں صدر امریکہ نے اُن کے خلاف بولنا شروع کردیا عوام جو صدر ٹرمپ کو ناپسند کرنے لگے ہیں نے ممدانی کا ساتھ دیا۔ دوسری بڑی غلطی صدر ٹرمپ نے ایرک آدم کو مقابلے سے باہر کرکے ممدانی کے لئے راہ ہموار کردی کہ افریقی امریکی عوام کے ٨٠ فیصد ووٹ بھی ممدانی کو ملے۔ ہسپانوی عوام نے بھی ممدانی کو اپنے فائدے کے لئے چنا۔ ہر چند کہ ممدانی پر ہر طرح کی الزام تراشی کی گئی۔ 9/11 کو دہرایا گیا، دہشت گردی کا الزام بھی لگایا اور کمیونسٹ اور سوشلسٹ بھی قرار دے دیا باوجود اس کے کہ ممدانی نے فلسطین میں فلسطینیوں کے GENOCIDE پر بھی آواز اٹھائی اور نتن یاہو کے خلاف بولے کہ وہ نیویارک آیا تو اُسے بین الاقوامی مجرم کی حیثیت کے طور پر گرفتار کیا جائے گا۔ (جو ممکن نہیں) مگر آواز بلند کرکے کہنا بھی ایک دیدہ دلیری کی مثال ہے ممدانی نے شاید عوام کے جزبے اور احساس کو جان لیا تھا اس لئے پریس کی اکثریت بھی ممدانی کا کچھ نہ بگاڑ سکی ایسا پہلی بار ہوا کہ ممدانی کو ہر طرح سے مدد ملی الیکشن جیتنے میں جب صدر ٹرمپ سے ممدانی کے بارے میں پوچھا گیا کچھ دن پہلے تو انہوں نے گول مول جواب دیا اور یہاں سے امریکی سیاست کا راستہ بدل سکتا ہے۔ پچھلے نو ماہ میں ریپبلکن نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو عوام کو سہولت دیتا، مہنگائی ختم کرتا۔ بلیک مارکٹنگ روکنا انشورنس کمپنیوں کے بے جا لوٹ مار سے وصول ہونے والی رقم پر نظر رکھتا ایسا لگتا تھا کہ صدر ٹرمپ ایک ہی سال میں بے کار ہوچکے ہیں۔ پھر انہوں نے بڑے عہدوں کے لئے جن لوگوں کو چنا وہ شکل و صورت کے علاوہ بات چیت میں بھی نفرت انگیز ثابت ہوئے سینیٹ کی ہیرنگ میں جیسے مذاق ہو رہا تھا۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیاں وعدے کے مطابق عوام کو ڈلیور کریں COVID 19 صدر بائیڈین کے لئے عذاب بن کر آیا تھا جو بور میں عوام کے لئے عذاب بن گیا اور بنا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کسی سمت میں دماغ کام نہیں کر رہا۔ کاروں کی قیمتیں ٥٠ فیصد زیادہ ہیں لیکن 90 فیصد کاریں امریکہ میں LEASE ہوتی ہیں تو عوام یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ 3 سو کی جگہ چار سو ڈالر ماہانہ بُرا نہیں۔ کار کے علاوہ انکی REPAIR پر بھی ڈیڑھ سے دو گنا زیادہ خرچہ ہے۔ پھر سب سے اہم صدر ٹرمپ نے TARIF بڑھایا تو ہر چیز کی قیمت عوام کو زیادہ دینی پڑ رہی ہے۔ اندازہ کیجئے ٤٣ ملین لوگ اس ملک میں حکومت کے دیئے پیسے سے کھانے پینے کی اشیاء خرید رہے ہیں۔ ابھی جب ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے درمیان بجٹ پر سمجھوتہ ہوسکا تو عوام میں بے چینی پھیل گئی۔ پچھلے ٥٣ سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ عوام نے ری پبلکن کو ناپسند کرنا شروع کردیا۔ اس دفعہ دو جگہوں کے گورنرز ڈیموکریٹ پارٹی سے لڑ رہے ہیں وہ یقین جانئے جیت جائینگے اور اگلے نومبر میں اگر صدر ٹرمپ نے ذمہ داری نہیں دکھائی تو ڈیمو کریٹ دوبارہ اکثریت میں ہونگے اور لڑائی چلتی رہے گی۔ ممدانی کے جیتنے کے بعد دوسری ریاستوں کے عوام بھی سوچنے پر مجبور ہونگے کہ دونوں پارٹیوں کو باہر نکالا جائے جنہوں نے غزہ میں نتن یاہو کو ٧٠ ہزار نہتے فلسطینیوں کو مروانے میں ساتھ دیا ہے۔ نیویارک ممدانی کے آنے سے تاریخ لکھے گا۔ نیویارک کے علاوہ جو دوسرے انتخاب زور شور سے ہوئے جس میں زور شور کے علاوہ دھاندلی بھی تھی۔ نتائج کے لئے کچھ نہیں کہا جاسکتا ایک اہم عہدہ ناسور کائونٹی کے چیف ایگزیکٹو کا ہے جس پر بلیک مین دوبارہ جیت کے لئے کوشاں ہیں لیکن نظر نہیں آتے انہوں نے بڑے فخر سے اپنے فلائر ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ دینے کا لکھا ہے کہ انہیں جتوایا جائے۔ ان کے مقابلے میں ڈیموکریٹ سے سیٹھ کوفولو ہیں جن کے لئے ویلی اسٹریم سے ہکس ول تک بڑی مہم چلی ہے ہم کہہ سکتے ہیں چونکہ سیٹھ کوسلو کا نام نیا ہے لہذا جیت کا موقعہ ٥٠ فیصدی ہے تیسرا اہم الیکشن ایک پاکستانی نوجوان علی شہریار ہیں جو نتھیانونیز ڈیموکریٹ کے مقابلے میں پچھلی دفعہ پر ہار چکے ہیں لیکن اس دفعہ حلقہ ١٤ سے آرہے ہیں اس مہم میں انکے والد جو ریپبلکن پارٹی کے بلیک مین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور شہریار علی سے زیادہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں کہ وہ اس کے علاوہ بلیک مین کے لئے بھی کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کی پوزیشن بلیک مین کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ بھی سنا اور کہا جارہا ہے اور اخبار میں آچکا ہے کہ قانون داں (LEGISLATOR) کے دو سال کے عہدے کے لئے غیر حاضر بیلٹ کے اندراج میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ جسے ووٹنگ فراڈ کہا گیا ہے ان کے لئے حالیہ خبر کے مطابق پلاننگ کے تحت اپنے مخالف کو پولیس کارروائی میں ملوث کرنے کا بھی الزام ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نتائج کیا ہونگے۔ کون جیتے گا سنتھیانونبیزیا شہریار علی یہاں بھی رائے ففٹی ففٹی ہے۔ ڈیموکریٹ بمقابلہ ری پبلکن اسکے علاوہ ہمارے پاس بہت کچھ آیا ہے شہریار علی کے بارے میں لیکن اس پر کچھ لکھنا یا سمجھانا، یا نتائج پر پہنچنا ہمارا کام نہیں اگر الیکشن میں ووٹنگ فراڈ ہوا ہے تو اس کی تحقیقات لتبیشیا جیمز نیویارک ڈسٹرکٹ اٹارنی کرینگی اور جس نے ایسا کیا ہے ثابت ہونے پر فیصلہ ہوگا، انتظار کیجئے۔
اب ہم آتے ہیں امریکہ میں ہونے والی حالیہ مشکلات کی طرف کہ ہوائی سفر ایک عذاب بنتا جارہا ہے کہ فلائٹ مل رہی ہے تو تین تین گھنٹے انظار کے بعد اس کی وجہ ایر کنٹرولر کی کمی اور بہت سوں کے چھٹی کرنے کی ہے۔ یہ کام پہلے صدر ریگن کر چکے ہیں کہ ایرلسٹرولر کی آسامیوں کی بھرا نہیں گیا ہے۔ ادھر حسب معمول صدر ٹرمپ جنگیں کر رہے ہیں۔ نائیجیریا پر الزام کے حکومت کرسچین پر ظلم کر رہی ہے ممکن ہے نائیجیریا کو شمال اور جنوب میں تقسیم کر دیا جائے، دوسری جانب وینزویلا کے صدر مدارو کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں کہ اُن کے خلاف کارروائی ہو۔ وہاں سے ایک مخالف عورت جیسے اممن کا پرائز ملا ہے وہ چیخ رہی ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے گی۔ اور صدر ٹرمپ کی اکانانی کی مد میں 52 فیصد ناکام ہے جب کہ امریکہ 67% غلط راستے پر چل پڑا ہے اگر یہ ہی حال رہا تو اگلے سال صدر ٹرمپ سب سے کم سطح پر ہونگے!!۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here