پاکستان سے بیرونِ ملک آنے والی ہر شخصیت، خواہ وہ عام شہری ہو یا کسی شعبے کی نمایاں ہستی، جب بھی اپنے ملک کا تذکرہ کرتی ہے تو چہرے پر افسوس، دل میں دکھ اور زبان پر مایوسی کے الفاظ نمایاں نظر آتے ہیں۔ بات صرف امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی نہیں، بلکہ صحت، تعلیم، مہنگائی، بیروزگاری اور عدالتی انصاف جیسے بنیادی شعبوں میں زوال کی بھی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کی اجتماعی امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس حال تک کیوں پہنچا؟ اور آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟اگر ماضی کی طرف جھانکا جائے تو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی قیادت کا بحران سب سے بڑا المیہ رہا ہے۔ وہ خواب جس میں ایک فلاحی، منصفانہ اور خوشحال ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی، وقت کے ساتھ سیاسی مفادات، ذاتی خواہشات اور اقتدار کی جنگ میں دفن ہوتا چلا گیا۔ ہر حکومت نے پچھلی حکومت کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا، مگر خود کوئی ایسی پالیسی نہ لا سکی جو عوامی زندگی میں حقیقی بہتری لا سکتی۔ سیاست دانوں نے جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کیا مگر جمہوری اقدار کی حفاظت نہ کر سکے۔
دوسری جانب، بیوروکریسی نے بھی اپنی مرضی کے قوانین اور نظام کو برقرار رکھا تاکہ طاقت کے مراکز ہمیشہ چند ہاتھوں تک محدود رہیں۔ عوام کے لیے بننے والے منصوبے فائلوں اور کمیشنوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے۔ قومی خزانے کو ذاتی خزانہ سمجھنے کی روش نے بدعنوانی کو ادارہ جاتی حیثیت دے دی۔ملک کے طاقتور ادارے بھی اس زوال سے بری الذمہ نہیں۔ کبھی براہِ راست اقتدار میں آ کر، کبھی پسِ پردہ رہ کر، انہوں نے بھی وہ توازن بگاڑا جس پر ایک صحت مند جمہوری ریاست کھڑی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا اعتماد نظام سے اٹھ گیا۔ لوگ سمجھنے لگے کہ پاکستان میں انصاف، میرٹ اور قانون کی بالادستی محض کتابی باتیں ہیں۔ایک اور بڑا عنصر ہماری اجتماعی بے حسی ہے۔ قومیں تبھی ترقی کرتی ہیں جب عوام اپنے حصے کا فرض ایمانداری سے ادا کریں۔ مگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر دوسروں پر انگلی اٹھانے کو کافی سمجھ لیا۔ ہم ٹیکس نہیں دیتے، قانون کی پاسداری نہیں کرتے، کرپٹ نظام سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور پھر انہی خرابیوں کا رونا بھی روتے ہیں۔تعلیم کی حالت دیکھ لیجیے، ایک ایسا ملک جہاں کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں، وہاں مستقبل کی کوئی روشن تصویر کیسے بن سکتی ہے؟ صحت کا نظام غریب کے لیے عذاب اور امیر کے لیے کاروبار بن چکا ہے۔ کسان محنت کرتا ہے مگر نفع بیچ میں موجود دلال لے جاتے ہیں۔ نوجوان ڈگریاں لے کر بھی روزگار سے محروم ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کے بجائے اپنی اجتماعی اصلاح کی طرف آئیں۔ قیادت کا انتخاب کردار کی بنیاد پر ہو، زبان اور ذات کی بنیاد پر نہیں۔ اداروں کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے دیا جائے۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنی ہوں گی۔ نظام وہی بہتر ہوتا ہے جس کے شہری بیدار ہوں۔پاکستان کی بدحالی کسی ایک طبقے کی غلطی نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی ہے۔ مگر خوشخبری یہ ہے کہ قومیں جب اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں، تو دوبارہ اٹھ کھڑی ہونے کی قوت بھی پیدا کر لیتی ہیں۔ اگر ہم آج سے ہی سچ بولنا، دیانت داری اپنانا اور قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا شروع کر دیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک بار پھر امید، امن اور خوشحالی کی علامت بن سکتا ہے۔
٭٭٭













