سیاسی اور معاشی نظام کی تلخیاں، کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں۔ میر تقی میر کے اشعار میں بھی اشرافیہ اور غریب عوام کے درمیان دوریوں اور تفاوت کا اچھا خاصا ذکر ملتا ہے۔ میر کا یہ شعر دیکھئے۔
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
اسی طرح، استعماری قوتوں نے مجبور لوگوں کا استحصال ہمیشہ جاری رکھا ہے۔ نظام چاہے اشتراکی ہو، پادشاہی ہو، جمہوری ہو یا قبائلی ہو، اس کے خلاف انقلاب لانے کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ظالم مظلوم کیلئے زندگی تنگ کر دیتا ہے۔ جوش کا یہ ایک شعر ہی اس کیفیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
جدید جمہوریت جسے مغربی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے، کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ!
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اسی جمہوری نظام کے تحت سے ہم امریکہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں ہر سال نومبر کے مہینے میں کسی نہ کسی عوامی عہدے کیلئے انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ پہلے پہل تو یہاں ہمارا ووٹ ہی نہیں ہوتا تھا، اس لئے ہم امریکی سیاست سے بے نیاز ہو کر برِ صغیر کی سیاست میں ہی زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ شہریت حاصل کرنے کے بعد، جب ووٹ بن گیا تو پولنگ اسٹیشن جانا شروع کیا۔ پاکستانی انتخابات والی چہل پہل کے سامنے یہاں تو ایک ہو کا عالم نظر آتا تھا۔ جنرل ضیا کے ریفرنڈم والے انتخابات بھی یہاں کے جنرل الیکشنز سے زیادہ پر رونق لگتے تھے۔ حالانکہ اس ریفرنڈم والے انتخابات تو حبیب جالب کے الفاظ میں کچھ اس طرح کے ہوئے تھے۔
شہر میں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ، باہر شور بہت کم تھا
کچھ با ریش سے چہرے تھے، اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے، سچائی کا چہلم تھا
ہمارے امریکی انتخابات بھی کچھ اسی طرح کے پھیکے پھیکے ہوتے رہے، جب تک کہ صدر اوباما کا انتخابی سال نہیں آیا۔ اس الیکشن میں اچھی خاصی رونق رہی۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کے انتخابات بھی کافی زور دار تھے۔ یہ پر رونق انتخابات بھی چونکہ صرف انگلش میں ہوتے رہے اس لئیے ہم جیسے فرسٹ جینریشن امریکیوں کیلئے کوئی زیادہ مزیدار اور چٹ پٹے نہیں تھے۔ البتہ اس سال نیو یارک کے میئر کا الیکشن، اس لحاظ سے بہت زوردار ہے کہ اردو، ہندی، بنگالی اور پنجابی میں زیادہ اور انگلش میں کم ہو رہا ہے۔ اسپینش اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی بہت جوش و خروش سے اپنی اپنی زبانوں میں یہ الیکشن منا رہے ہیں۔ اردو کے اس ضرب المثل شعر کی موجودگی میں، ہم ہارنے والے امیدوار کو انگلش میں کیسے تسلی دے سکتے ہیں۔
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
متحدہ ہندوستان کی شیعہ خوجہ فیملی کا چشم و چراغ، ظہران ممدانی ان انتخابات کا ہیرو ہے۔ چونتیس سالہ اس نوجوان نے امریکہ کی انتہائی مظبوط اسٹیبلشمنٹ کو وخت ڈالا ہوا ہے۔ نیویارک میں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک راج کرنے والی کومو فیملی، اس نوجوان کے سامنے بالکل بیبس نظر آرہی ہے۔ صدر ٹرمپ اور امریکی اشرافیہ کی دوڑیں لگیں ہوئی ہیں کہ کسی طرح اس مردِ مسلماں کو نیو یارک کا مئیر نہ بننے دیں لیکن ہر رنگ و مذہب و نسل کا عام آدمی، دیوانہ وار ممدانی کی حمایت میں باہر نکلا ہوا ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنی ساری پرانی روایت بھلا دی ہیں۔ نیو یارک کے سابق گورنر کومو ڈیموکریٹک پرائمری میں شکست کھانے کے باوجود، اشرافیہ کی حمایت سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں ان حتمی الیکشنز میں حصہ لے رہے ہیں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ظہران کو شکست دی جائے۔ عام طور پر امریکی صدور، مئیر کے انتخابات میں اتنی دلچسپی نہیں لیتے لیکن موجودہ صدر، امیدوار کومو کو براہِ راست مشورے دیتے ہوئے پکڑے جاچکے ہیں۔ اسی لئے تو شاید جالب نے یہ کہا تھا۔ یہاں اسلام کو ریاست سے بدلا جا سکتا ہے۔
خطرہ ہے زرداروں کو، گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو، خطرے میں اسلام نہیں
خطرہ ہے خوں خواروں کو، رنگ برنگی کاروں کو
امریکا کے پیاروں کو، خطرے میں اسلام نہیں
ظہران ممدانی نے دنیا کے اس تاریخی شہر نیو یارک میں ایک ایسی انتخابی مہم چلائی ہے جس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس وقت ایک لاکھ سے زائد رضاکار اس کی بے مثال مہم کا حصہ ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد تو اس کو اپنا مرشد سمجھتی ہی ہے، آنٹیاں اور انکلز بھی بہت بڑی تعداد میں اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اسے بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ بچپن سے ہی ایک لیڈر رہا ہے۔ چوتھے درجے میں اپنی کلاس کے مانیٹر کا الیکشن جیتا اسی لئے لگتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی نظام کو ایک بہت قیمتی ہیرا نصیب ہوا ہے جو کافی عرصے تک اِس ملک کی سیاست کا ایک تابندہ و رخشندہ ستارہ رہے گا۔ ظہران زکو فانڈیشن آف امریکہ کی نیو یارک کے مستحقین کیلئے ہونے والی مختلف ڈسٹریبیوشنز میں بھی شرکت کرتا رہا ہے۔ وہ بریانی یا پلا براہِ راست، اپنے ہاتھ سے کھاتا ہے یعنی چمچے یا فورک کا استعمال نہیں کرتا۔ اسی لئے تو ہم خالص دیسی انداز میں یہ نعرہ بھی لگا رہے ہیں کہ
حق و صداقت کی نشانی۔ ظہران ممدانی ظہران ممدانی
ظہران نے جس طرح مسئلہ اسرائیل پر ہمیشہ کھل کر رائے دی ہے اور فلسطینی عوام کی آزادی کیلئے آواز بلند کی ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔ امریکی اور خاص طور پر نیو یارک کی سیاست میں اس طرح کا مقف رکھنا، جان جوکھوں کا کام ہے لیکن بے خطر ظہران تو آتشِ نمرود میں کود چکا ہے، دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ مخالف امیدواروں کے ساتھ ہونے والے تینوں ٹی وی مباحثے اس نے بہت اچھے طریقے سے جیتے ہیں اور بھری اسٹیج پر انہیں کئی دفعہ لاجواب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ مخالفین نے اس پر اب تک جتنے بھی لغو اور بے معنی الزامات لگائے ہیں، عام لوگوں نے انہیں رد کردیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اس پر کرنے کی بھی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ سیاسی بے بسی ایک ایسی کیفیت ہے جو بڑی سے بڑی مثر اشرافیہ کو بھی بہت کمزور اور نحیف کر دیتی ہے۔ کچھ یہی حال اس وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔
نیو یارک میئر کے الیکشن سے امریکہ میں انقلاب تو نہیں آسکتا مگر بہرحال ہم مبارک صدیقی کے الفاظ میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے
اداس چہرے گلاب کر دے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
٭٭٭











