ٹرمپ کا پھر یو ٹرن…یا سیاسی تضادات!!!

0
49
شمیم سیّد
شمیم سیّد

کسی شاعر نے ٹرمپ کیلئے کہا ہے! ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان بھی انہی سیاسی تضادات کی علامت ہے۔ وہ کبھی جلسوں میں پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، پاکستانیوں کو عظیم اور وفادار قوم قرار دیتے ہیں مودی اور بھارت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔دنیا کی سیاست ہمیشہ چہروں کے کھیل سے زیادہ بیانیوں کے کھیل کا نام رہی ہے۔ ایک رہنما جب مسکراتا ہے تو اس کے پیچھے کئی طوفان دبے ہوتے ہیں۔ مگر کواکب کا بھید عین اس وقت کھلتا ہے جب واشنگٹن کی خاموش راہداریوں میں گردش کرتی فائلیں بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی صورت نمودار ہوتی ہیں۔ اسی لمحے ٹرمپ کی پاکستان سے محبت ایک نظر کا فریب بن جاتی ہے، اور سفارتی حقیقت اپنا چہرہ دکھاتی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے تعلقات اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ماضی میں یہ رشتہ محض سفارتی یا تجارتی سطح پر محدود تھا، مگر اب یہ تعلق عسکری، تکنیکی اور تزویراتی اشتراک میں بدل چکا ہے۔ امریکہ کے لیے بھارت صرف ایک پارٹنر نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی کے مہرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ واشنگٹن بخوبی جانتا ہے کہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی آزمائش چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو قابو میں رکھنا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت جغرافیائی، عسکری اور معاشی طور پر ایک موزوں ساتھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک نے حال ہی میں دس سالہ دفاعی فریم ورک پر دستخط کیے، جس کے تحت ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، خفیہ معلومات کے تبادلے اور فوجی مشقوں تک اشتراک بڑھایا گیا ہے۔ درحقیقت امریکہ بھارت کا تعلق چین کے خلاف ایک منظم توازن قائم کرنے کی کوشش ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ انڈو پیسیفک خطے میں بھارت اس کا بازو بنے، تاکہ چین کی معاشی اور عسکری سرگرمیوں کو محدود رکھا جا سکے۔ دوسری طرف بھارت بھی اس تعلق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ امریکہ سے جدید ہتھیار، خلائی اور دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کر کے خود کو خطے کی بڑی طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ گویا دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کے شریک ہیں، مگر کھیل کا مرکزی اسکرپٹ واشنگٹن لکھ رہا ہے۔امریکہ نے بھارت کو چین کے مقابلے میں مضبوط کرنے کے لیے کئی سطحوں پر معاہدے کیے۔ دس سالہ دفاعی فریم ورک کے علاوہ کواڈ نامی چار ملکی اتحاد (امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا) اس حکمتِ عملی کا واضح اظہار ہے۔ بظاہر اس کا مقصد انڈو پیسیفک کو آزاد اور محفوظ بنانا ہے، مگر اس کے پس منظر میں چین کے بڑھتے اثر کو بیلنس کرنا اصل مقصد ہے۔ امریکہ نے بحرِ ہند میں چین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مشترکہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ یوں بھارت اب خطے کا وہ نگہبان ہے جو امریکی مفادات کی پہلی صف میں کھڑا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ امریکی شراکت داری بھی اسی تزویراتی جال کا حصہ ہے۔ واشنگٹن دراصل ایشیا میں ایسے اتحادیوں کا نیٹ ورک بنا رہا ہے جو بظاہر خودمختار ہوں مگر عملا امریکہ کے دفاعی محور کا حصہ بن جائیں۔ بھارت اور جنوبی کوریا کے درمیان بڑھتے صنعتی اور ٹیکنالوجیکل روابط بھی اسی سمت اشارہ کرتے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں کئی مقامی قوتیں ابھریں جو چین اور روس کے اثر کو کم کرنے میں مدد دیں۔ یوں بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا ایک غیر اعلانیہ امریکی اتحاد کے دائرے میں سمٹتے جا رہے ہیں۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر پاکستان کے لیے محبت کے نغمے گا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ شاندار ہیں۔پاکستان نے بھارت کے سات طیارے گرائے جو بڑی بات ہے ٹرمپ مودی اور قاتلکا خطاب دیتے ہیں۔ مگر اسی دوران امریکی انتظامیہ خاموشی سے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو وسعت دے رہی ہوتی ہے۔ ٹرمپ کا اندازِ بیان عوامی جذبات کے لیے ہے، مگر اصل فیصلے وہی ہیں جو امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں طے پاتے ہیں۔ ٹرمپ کی محبت ایک بیانیہ ہے، پالیسی نہیں۔ ان کی زبان پاکستان کے لیے نرم ہو سکتی ہے، مگر واشنگٹن کے کاغذات میں بھارت کو ہی خطے کا حقیقی ساتھی قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ تضاد پاکستان کے لیے ایک سبق ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں بیانات سے زیادہ معاہدے بولتے ہیں۔ دنیا کے طاقتور ممالک الفاظ کے ذریعے نہیں بلکہ طویل المدت پالیسیوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بھارت نے امریکہ سے تعلقات کو اپنے قومی مفاد کے دائرے میں رکھ کر استعمال کیا۔حقیقت میں امریکہ نے جس ملک کے ساتھ خاموشی سے محبت کا اظہار کیا وہ بھارت ہے، جس کے ساتھ اس نے دفاعی تعاون کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ پاکستان کے لیے اصل ضرورت اس بصیرت کی ہے کہ وہ بیانات سے آگے دیکھے، اور یہ سمجھے کہ عالمی تعلقات میں دل نہیں بلکہ دماغ کام کرتا ہے۔ سیاست ہمیشہ مستقل مفاد کے ساتھ کھڑی رہتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی میٹھی باتوں کے پردے میں کیوں نہ چھپی ہو۔ اس نے روس سے پرانے تعلقات بھی نہیں توڑے، چین سے براہِ راست جنگ سے بھی گریز کیا، مگر واشنگٹن کے قریب آ کر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ ضرور کیا۔ پاکستان کو بھی یہی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ خارجہ تعلقات وقتی جوش یا جذباتی توقعات پر نہیں بلکہ مسلسل منصوبہ بندی پر استوار کیے جاتے ہیں۔ عالمی سیاست میں محبت کی زبان نہیں چلتی، مفادات کی گنتی چلتی ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ دس سالہ دفاعی معاہدہ اس لیے نہیں کیا کہ وہ واشنگٹن سے محبت کرتا ہے بلکہ اس لیے کیا کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی، صنعت اور سکیورٹی کے مفادات عزیز ہیں۔ پاکستان اگر آج اپنی خارجہ پالیسی میں تسلسل پیدا کرے، اپنی خودمختاری کو اصولی ترجیح بنائے، اور خطے میں اپنی جغرافیائی اہمیت کو مثبت انداز میں پیش کرے تو وہ کسی بھی بڑی طاقت کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلق قائم کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کی پاکستان سے دیوانہ وار محبت دراصل الفاظ کا ایک طلسم ہے، ایک سفارتی ادا جس کے پسِ پردہ مفادات کا کھیل جاری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here