نیویارک کا چمکتا ستارہ…ظہران ممدانی!!!

0
33
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ظہران ممدانی نے امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کا میئر کا انتخاب جیت لیا ہے۔ اس ایک فتح میں کئی فتحیں پنہاں ہیں۔ اسی طرح، اس جنگ میں کئی شکستوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ کسی ایک شہر کے میئر کے انتخاب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس انتخاب میں خلیج اور اسرائیل کا پہلو بہت نمایاں ہے لیکن ہم اس پہلو پر بحث بعد میں کریں گے کیونکہ یہ ان شکستوں سے متعلق ہے جو ممدانی کی فتح میں لپٹی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں سوشلزم کی نئی لہر ایک دلچسپ سماجی و سیاسی مظہر ہے جو اب محض نظریاتی حلقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ نوجوان نسل، تعلیمی اداروں اور متوسط طبقے میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہے۔ ممدانی اور ان جیسے رہنما یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید سوشلزم نجی ملکیت کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ عوامی مفاد کے تحفظ کا دوسرا نام ہے۔ وہ سرمایہ داری کو ختم کرنے کے بجائے اسے انسانی ضرورتوں کے تابع کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یہی نکتہ امریکی عوام کے لیے قابلِ قبول راستہ بن سکتا ہے کیونکہ برنی سینڈرز کے برعکس ممدانی سوشلزم کو ایک متوازن شہری ماڈل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ظہران نے برنی سینڈرز کی مہمات سے متاثر ہو کر نیویارک میں اپنی سیاسی شناخت بنائی۔ وہ نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے رکن ہیں اور سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے فعال رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ ممدانی کا سوشلزم برنی سینڈرز کے سوشلزم سے مختلف نہیں بلکہ اس کی شہری سطح پر توسیع ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ سوشلزم کا مطلب دولت کی جبرا تقسیم نہیں بلکہ عوامی وسائل پر عوام کا اختیار ہے تاکہ صحت، تعلیم، رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولتیں منافع نہیں بلکہ انسانی ضرورت کے اصول پر مہیا کی جائیں۔ ظہران ممدانی کی سیاست کا دائرہ ابھی نیویارک تک محدود ہے، لیکن ان کے فکری اثرات قومی سطح پر محسوس ہونے لگے ہیں۔ برنی سینڈرز، الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، جمال باومن اور حالیہ برسوں میں سب سے نمایاں طور پر نیویارک کے رہنما ظہران ممدانی اس تحریک کے فکری اور سیاسی نمائندہ چہرے ہیں۔ برنی سینڈرز نے امریکی سیاست میں سوشلزم کے لیے وہی کردار ادا کیا جو گزشتہ صدی میں یورپ میں جرمن سوشل ڈیموکریٹس نے کیا تھا۔ امریکہ میں سوشلزم کی تحریک سب سے زیادہ نیویارک، شکاگو، سیئٹل اور لاس اینجلس میں مقبول ہے۔ ان شہروں میں کرایوں میں اضافے، صحت کے اخراجات اور نسلی عدم مساوات کے خلاف تحریکوں نے سوشلزم کو ایک متبادل سماجی بیانیے کے طور پر مضبوط کیا ہے۔ بالخصوص نیویارک میں جہاں مختلف قومیتوں، نسلوں اور طبقات کا اختلاط ہے، ممدانی جیسے رہنما عوامی مباحثے میں طبقاتی ناہمواری، پناہ گزینوں کے مسائل اور ماحولیاتی انصاف کو ایک ہی فریم میں لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ داری نے شہروں کو دولت مندوں کے قلعے اور غریبوں کے صحرا بنا دیا ہے، اب وقت ہے کہ عوام اپنے وسائل واپس لیں۔ سوشلزم کے بارے میں امریکی سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ سے خدشات کا شکار رہا ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ ریاست کی مداخلت کاروبار کی آزادی اور منافع کے امکانات کو محدود کر دے گی۔ انہوں نے سرمایہ داری کے نظام کو للکارا، مزدوروں کے حقوق، صحت، تعلیم اور معاشی مساوات کو بنیادی سیاسی موضوع بنایا۔ ان کے بعد آنے والے رہنمائوں نے ان خیالات کو شہری سیاست اور مقامی حکومتوں کے ذریعے عملی شکل دینے کی کوشش کی۔ ظہران ممدانی کا تعلق یوگنڈا کے ایک بھارتی نژاد خاندان سے ہے، ان کے والد معروف مفکر محمود ممدانی ہیں جنہوں نے استعماری طاقتوں کے بعد کے سماجی نظاموں پر گہری تنقید کی۔ وہ نسل، مذہب، طبقے اور قومیت کے مسئلے کو ایک ساتھ سمجھنے والے نادر رہنما ہیں۔ امریکی سیاست میں اکثر یہ موضوعات ایک دوسرے سے جدا سمجھے جاتے ہیں مگر ممدانی انہیں ایک ہی ساخت کے اجزا مانتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب تک سیاسی نظام غریب، سیاہ فام، ہسپانوی اور مسلم شہریوں کو ایک جیسی نمائندگی نہیں دیتا، تب تک امریکہ اپنی جمہوری روح سے محروم رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممدانی قومی لیڈر بن سکتے ہیں؟ اس کا انحصار صرف ان کی فکری قوت یا عوامی اپیل پر نہیں بلکہ امریکی سیاست کے اندر سوشلزم کے لیے برداشت و قبولیت کی سطح پر بھی ہے۔ برنی سینڈرز دو بار صدارتی دوڑ میں شریک ہوئے مگر پارٹی کے اندر ہی مخالفت نے ان کی راہ روکی۔ تاہم انہوں نے وہ فکری زمین ہموار کر دی ہے جس پر اب ممدانی جیسے رہنما آگے بڑھ رہے ہیں۔ ممدانی اگر اپنے خیالات کو مقامی مسائل سے جوڑتے رہے تو وہ آنے والے برسوں میں امریکی بائیں بازو کی نئی شناخت بن سکتے ہیں۔ امریکہ میں سوشلزم کی تحریک اب محض ایک معاشی نظریہ نہیں رہی بلکہ یہ اخلاقی بیداری کی علامت بن چکی ہے۔ بڑھتی ہوئی ناہمواری، دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، صحت و تعلیم کی مہنگائی اور ماحولیاتی تباہی نے عوام کو متبادل سوچ پر آمادہ کیا ہے۔ ممدانی اور ان کے ساتھی اس متبادل کو اخلاقی زبان دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سوشلزم کوئی خوفناک لفظ نہیں، یہ انسان کے وقار، برابری اور انصاف کی بحالی کی جستجو ہے۔ اگر امریکی سیاست اس جستجو کو جگہ دیتی ہے تو امکان ہے کہ برنی سینڈرز کا خواب ظہران ممدانی کے ہاتھوں حقیقت کے قریب پہنچ جائے۔ پاکستان مین ممدانی کی بطور میئر نیو یارک کامیابی کو بہت سطحی انداز میں دیکھا گیا ہے۔ظہران ممدانی اور امریکی سوشلسٹ تحریک کو براہِ راست پاکستان کے سیاسی یا معاشی تناظر سے جوڑنا شاید ممکن نہ ہو، مگر فکری سطح پر ان کے نظریات سے کئی اسباق اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ممدانی کی سیاست کا مرکز امعاشی انصاف، عوامی وسائل پر جمہوری اختیار اور شہری وقار کی بحالی ہے ۔ امریکہ جیسے سرمایہ دارانہ نظام میں اگر سوشلزم کی اخلاقی آواز ابھر سکتی ہے تو پاکستان جیسے طبقاتی معاشرے میں تو اس کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ ممدانی اس بات کی علامت ہیں کہ سیاست علم، اخلاق اور تخیل سے جنم لے سکتی ہے اور یہی تین عناصر پاکستان میں بھی مفقود ہیں۔ پاکستانی سماج کو کسی نظریاتی نقل کی نہیں بلکہ اپنے حالات کے مطابق عوام دوست سیاست کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں کوئی سیاسی تحریک اس تصور کو اپنا لے کہ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف ہر شہری کا حق ہیں تو شاید وہی تحریک اس ملک کا چہرہ بدل سکے۔ ممدانی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ووٹ ڈالنا نہیں، عوام کو بااختیار بنانا ہے اور یہی سبق پاکستان کے مستقبل کے لیے سب سے قابل قدر ہے۔ یہ وہی اصول ہیں جن کی کمی پاکستان میں سب سے زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ یہاں دولت کا ارتکاز چند خاندانوں، کارٹلوں اور اداروں تک محدود ہے، عوامی مفاد کے منصوبے یا تو کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں یا بیوروکریسی کی پیدا کردہ تاخیر میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کے نوجوان، طلبہ اور متوسط طبقے کے باشعور افراد ممدانی کے ماڈل سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ سیاسی جدوجہد کا محور محض اقتدار نہیں بلکہ عوامی فلاح ہونی چاہیے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here