شاذو نادر ہی ایسا موقع دیکھنے میں آتا ہے جب فتح کا جشن میدانوں یاٹائمز اسکوائر کے بجائے گھر کے ایوانوں میں منایا جارہا ہو،یہ دلی خوشی کی ایک علامت ہی کہا جاسکتا ہے، ظہران ممدانی کی میئر کے الیکشن میں کامیابی ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے باسیوں کیلئے ایک انہونی بات ہے، اِسلئے وہ گھر کے کمروں ہی میں اچھل کود ، ناچنا گانا شروع کردیا ہے، اسٹوریا کے کافی شاپ میں دھمال کیلئے پہنچ جانا اُن کے مشغلے میں شامل ہے، اسٹوریا کا کافی شاپ بھی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال سے کچھ کم نہیں، جہاں ایک بنگلہ دیشی مائیک لیتا ہے اور بنگالی زبان میں ممدانی کو خراج عقیدت پیش کرنے لگتا ہے، اُس کے بعد باری فلسطینی نوجوان کی آتی ہے اور وہ عربی میں تقریر کرنے لگتے ہیں۔پاکستانی نژاد امریکی اور خالص پاکستانیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ، خالص پاکستانیوں نے بھنگڑا ڈالنے سے بھی باز نہ رہ سکے اور سارے اقوام متحدہ کی ٹیم لڑکے ہو یا لڑکیاں بھنگڑا ڈالنے میں مگن ہوگئے۔ کافی شاپ کے مالک بیچارے کو بزنس کے بجائے اپنے کرسی ٹیبل کو ہی بچا کر رکھنا مشکل ہوگیا ،ظہران ممدانی کافی شاپ میں حسب وعدہ تشریف لے آئے۔ اُن کا شیڈول انتہائی محدود تھا اُنہیں اُسکے بعد بروکلین اور مینہٹن بھی جانا تھا. بروکلین کے تھیٹر میں ممدانی کو خوش آمدید کرنے کیلئے اتنا بڑا مجمع جمع ہوگیا تھا جو شاید ہی اِس سے پہلے دیکھنے میں آیا ہو، حیران کن امر یہ ہے کہ شرکاء میں بھارتی اور سکھ نوجوان بھی شامل تھے۔ ایک بھارتی نوجوان ہاتھ میں بھارتی جھنڈا لئے لہرا رہا تھا جب اُس سے ایک پاکستانی نوجوان نے گلہ کیا کہ اُس کے پاس پاکستانی جھنڈا نہیں ہے تو اُس بھارتی نوجوان نے اُسے کہا کہ انتظار کرو وہ کچھ کرتا ہے چند لمحہ بعد وہ ایک سبز کپڑے کو جس پر پاکستان لکھا تھا لہراتے ہوئے لے آیا، بھارتی نوجوان نے بتایا کہ اُس کی بیوی نے اپنی سبز ساڑی کو کاٹ کر یہ جھنڈا بنایا ہے، دونوں آپس میں گلے ملنے لگے،ٹیلی ویژن والے البتہ گھپلا کر رہے تھے جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ پولنگ رات کے نو بجے بند ہوجائیگی اور اُس کے فورا”بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوجائیگی لیکن جب میں نے نو بجے کے بعد چینل اے بی سی آن کیا تو وہاں ڈانسنگ وِتھ دی اسٹارز کا پروگرام زور شور سے سر گرم تھا۔ بادل نخواستہ میں نے چینل فاکس کو آن کیا، وہاں میئر کے الیکشن کے نتائج بتائے جارہے تھے اور واضح الفاظ میں یہ کہا جارہا تھا کہ ظہران ممدانی نے اکثریت کا ووٹ یعنی پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرلیا ہے ، اور چند لمحہ بعد ہی وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرینگے، آپ بھی اُن کی تقریر کے اقتباسات سے آگاہ ہوں، اُنہوں نے لفظ اول سے ہی صدر ڈونلڈ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ہم لوگ حِرص و بدمعاش صاحب جائیداد افراد سے جواب طلب کرینگے ، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے افراد نے نہایت اطمینان سے اپنے کرائے داروں کا استحصال کیا ہے،ہم لوگ کرپشن کے کلچر کا خاتمہ کر دینگے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بلینئرز کو ٹیکس ادا نہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، ہم لوگ یونین کے شانہ بشانہ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرینگے، نیویارک ہمیشہ تارکین وطن کا شہر رہے گا، ایک شہر جسے تارکین وطن نے بنایا ہے اور جسے وہ چلارہے ہیں، اور جیسا کہ آج کی رات مظہر ہے وہ اِس کی رہنمائی کر رہے ہیں، اِسلئے ڈونلڈ ٹرمپ آج یہ اچھی طرح سن لیں کہ اگر اُنہوں نے ہم میں سے کسی کو بھی زک پہنچانے کی کوشش کی تو اُنہیں سبھوں کو زک پہنچانا ہوگا، جب ہم لوگ 58 دِن کے بعد سٹی ہال میں داخل ہونگے تو ہماری توقعات وسیع ہونگ،لیکن ہم اُسے پورا کرینگے، جیسا کہ ایک عظیم نیویارکر نے کہا ہے کہ آپ سیاسی جدوجہد شاعرانہ طرز پر کرتے ہیںلیکن آپ کی حکومت نثر میں ہوتی ہے اگر یہ ایک حقیقت ہے تو نثر جو ہم لکھیں گے وہ بھی شاعرانہ ہوگی، ہم لوگوں کو ایک چمکتا دمکتا شہر تعمیر کرنا ہے، میں تاہنوز ایک نوجوان ہوں اگرچہ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہوں کہ میں زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل کروں،میں ایک مسلمان ہوں، میں ایک سوشلسٹ ڈیموکریٹ ہوںاور میں اپنی اِس وابستگی پر نالاں نہیں ہوں۔
آپ کے سامنے کھڑے مجھے جواہر لال نہرو کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ” تاریخ میں کبھی وہ لمحات پیش آتے ہیں لیکن شاذ و نادر ہی جب ہم قدیم سے جدید کی جانب سفر کرتے ہیںاور جب پرانی تاریخ پر نئی تاریخ غالب آجاتی ہے، اور صدیوں کے مظلوم افراد کو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں” آج کی رات ہم صدیوں کی پرانی زنجیروں کو توڑ کر نئے باب میں داخل ہوگئے ہیں لہٰذا مجھے واضح طور پر کسی مغالطے سے مائورا آپ کو یہ بتادینا ہے کہ نئے دور میں کیا تبدیلیاں آئیں گی اور اُسے کون لائیگا، یہ وہ موقع ہوگا جب نیویارکر اپنے رہنما سے واضح طور پر یہ سنیں گے کہ ہمیں کیا حاصل کرنا ہے، اور بجائے اِس بذدلانہ معذرت کے کہ یہ ممکن نہیں ہے،یکم جنوری کو میں نیویارک سٹی کے میئر کا حلف لونگا. اور یہ رتبہ مجھے آپ کی بدولت حاصل ہوا ہے،اِسلئے کچھ مزید کہنے سے قبل میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں،شکریہ مستقبل کی نسل کا جنہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ سیاستدانوں کا وعدہ کرنا ماضی کی ایک رسم ہے،نیویارک آج تم نے ایک نیا مینڈیٹ دیا ہے تبدیلی کا. ایک مینڈیٹ ایک نئی قسم کی سیاست کا، ایک مینڈیٹ نیویارک سٹی کا جس کی ہم استطاعت کر سکتے ہیں اور ایک مینڈیٹ نئی حکومت کا جو اپنا وعدہ پورا کرے گی۔













