قابل بھروسہ لوگ !!!

0
48
رعنا کوثر
رعنا کوثر

قابل بھروسہ لوگ !!!

حضرت انس حضور ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی نہ چاہیے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔اب اس حدیث کو لے کر ہم اپنے اوپر غور کریں یا اپنے اردگرد غور کریں تو ہم کو محسوس ہوگا کے ہم وہ نہیں کرتے کسی کے لئے بھی جو اپنے لئے چاہتے ہیں چاہیے وہ ہمارا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو یہ تو قدرتی بات ہے کے ہم اپنا اور اپنے بچے کا یا اپنے ماں باپ کے لئے دل سے جان سے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن کیا کبھی سوچا کے ہم دوسرے کا بچہ یا بوڑھا اپنا نہیں سمجھ سکتے اور اس کو ذرا سا بھی اس قابل نہیں سمجھتے کے جو اپنے لئے چاہتے ہیں وہی دوسرے کے لئے بھی چاہنا چاہئے۔ ہم پاکستانی اپنی قوم کیلئے اور مسلمانوں کیلئے بہت جذبات رکھتے ہیں اس لئے ہم جب امریکہ آئے ہیں تو بھرپور طریقے سے اپنے لوگوں کے ساتھ ہی معاملات کرنا چاہتے ہیں محبت اور اپنائیت سے اپنے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں کے کوئی پاکستانی خاتون مل جائیں جو بچوں کا خیال کریں بچوں کی بے بی سٹنگ کے لئے نوجوان والدین جو جاب کرتے ہیں جب کسی پاکستانی خاتون کو اپنے بچوں کیے لئے رکھتے ہیں تو ان کا دل مطمئن ہوتا ہے کے کوئی پاکستانی خاتون مل گئیں بچے کی دیکھ بھال اچھی ہوجائے گی مگر ہوتا کچھ یوں ہے کے وہ خاتون جن پر بھروسہ کرکے ایک خاتون خانہ اپنا گھر اپنا بچہ سپرد کرکے گھر سے باہر کام کرنے کے لئے جاتی ہے اگر وہ خاتون یہ سمجھ لیں کے اب کوئی دیکھنے والا نہیں ہے گھر کسی کا ہے مگر اس گھر میں کوئی بھی نہیں ہے اب وہ جو مرضی کریں یوں وہ اپنی ذمہ داری بھول کر دوسری معاملات میں مشغول ہوجاتی ہیں بچوں کوئی وی کے آگے بٹھا کر خود فون پر مصروف یا بچوں کے ہاتھ میں خون دے کر خود ٹی وی دیکھنے میں مصروف گھر والوں کے آنے سے پہلے ٹی وی بند ہوا کھانا کھلایا کپڑے بدلے اور اپنا فرض پورا کیا۔ اگر بچہ کچھ زیادہ ہی چھوٹا ہے تو اس کو پورا دن اسی کی کاٹ میں ہی لٹا کر دکھا سلائے ہی رہے یا دودھ پلاتے رہے گھر والوں کے آنے سے پہلے ڈائپر اور کپڑے بدلے اور تیار کردیا۔ پیسے لینے کے لئے ہر ہفتے چیک تیار ہونا چاہئے زیادہ تر لوگ تو کیش ہی مانگتے ہیں پیسہ لیا اور ذمہ داری ختم مگر یہ وہ خواتین ہیں جو بھول جاتی ہیں کے والدین ان سے کتنی امیدیں رکھتے ہیں وہ ان کے بچوں کے لئے ایک رول ماڈل ہوسکتی ہیں۔ گھر میں نماز پڑھنے اردو بولنے والی خواتین کو ہی نوجوان جوڑوں نے رکھنا چاہا مگران کی بے حسی اور خود غرضی پر حیران رہ گئے۔ یہیں مجھے یہ حدیث یاد آئی کے کیا آپ اپنے بچے کو ایسا ہی پالتے ہو دوسرے کے بچے کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ کئی نوجوان مائوں نے پاکستانی عورتوں کی بے حسی اور لاتعلقی کی کہانیاں سنائیں اور مایوس ہو کر دوسری قوم اور ممالک کی عورتوں کو ترجیح دی جو سنجیدگی سے اپنی جاب بٹھانا جانتی ہیں اور ایسی بھی خواتین ہیں جو وعدہ کرکے غائب ہو جاتی ہیں یہ بھی احساس نہیں کے بچے کی ماں کو جاب پر جانا ہوتا ہے اس کو بتائو دیں کے ہم نہیں آرہے۔ آخر کار مائوں کو چھٹی کرنی پڑتی ہے یا پھر بچے کو سکول لے جائو۔ اس لئے بہت سارے جوڑے اب بہت احتیاط سے کسی خاتون کو رکھنا چاہتے ہیں تاکے ان کا بچہ کسی عورت کی بری نیت کا شکار نہ ہو۔ دوسری قوموں کی عورتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے ہم اپنی قوم کی اپنے مذہب کی خاتون پر بھروسہ کرتے ہیں کے چلو یہ بچوں کو بہت پیار سے رکھیں گی مگر وہ بھی بدنیتی کا شکار ہوں تو پھر کیوں ان کو ہی ڈھونڈھا اور رکھا جائے اس لئے اب نئی نسل نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ بہت سارے تجربوں کے بعد صرف سوچ یہ ہوجاتی ہے کے کوئی اچھی عورت ہو جو بچوں کو اچھا رکھے اور کوئی خراب ایسی بات نہ ہو جس سے دل خراب ہو۔ دکھ یہ ہوتا ہے کے اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر جب وہ لوگ برائی کرتے ہیں جن کو اچھائی کا پتہ ہوتا ہے تو پھر اس ملک میں چوائس کی کمی نہیں ہے اچھے انسانوں کی کمی ہے جو ہر قدم میں مل جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here