آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا !!!

0
49
جاوید رانا

آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنوں کے ہی ہاتھوں اپنی بقاء کی جنگ ہار گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اناللہ کہیں یا دیکھا تو تیرکھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی والا شعر دہرائیں۔ ایک بیباک اور سینئر صحافی کے بقول1973ء کا بھٹو شہید کا دیا ہوا متفقہ آئین اسکے نواسے کے ہاتھوں دفن کردیا گیا۔ 27 ویں آئینی ترمیم کا نفاذ جمہوری وآئینی اصولوں سے روگردانی ہی نہیں ایک ایسی ریاست کا پیش خیمہ ہے جہاں نہ قانون و انصاف کی پاسداری برقرار رہ سکے گی نہ ہی عوامی رائے عامہ کی کوئی اہمیت ہوگی۔ ہمارے اس کالم کی اشاعت سے قبل ہی قارئین اس ترمیم کی تفصیلات وعواقب سے یقیناً آگاہ ہوچکے ہوں گے اور مختلف آراء و سوچ رکھتے ہوں گے۔ ہمارا نکتہ نظر محض یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو عوامی وجمہوری اور انصاف وقانون کی ریاست کے برعکس ایگزیکٹو کا محتاج کردیا گیا ہے۔
قارئین یقیناً ترمیم کے نتیجے میں ظہور پذیر ایشوز وقوانین سے شناسائی حاصل کرچکے ہیں۔ اس دوران جو سیاسی وخود غرضانہ تماشہ بازی ہوتی رہی، گو پاکستانی سیاسی تاریخ ایسے تماشوں سے بھری پڑی ہے لیکن شاید اس بار سارا کھیل مکمل فرمانبرداری اور خود غرضی پر مبنی تھا۔ ابتدائی اطلاعات ومعلومات کے مطابق جن ایشوز پر تحریک لائی جانی تھی ان میں سے بیشتر بلاول کے سندھی قوم پرستی کے ووٹ نہ ملنے اور صوبوں کے NFC میں کٹوتی کے اختلاف اور یکساں نصاب ودیگر امور وشعبوں کے وفاق کو منتقل ہونے کو ڈراپ کردیا گیا اور سارا زور فیلڈ مارشل کو تاحیات استثنیٰ دینے، عسکری چین آف کمانڈ میں بڑی تبدیلیوں پر مرکوز رکھا گیا۔ بلاول اپنے والد محترم کے ماضی اور پیش آمدہ کرتوتوں کے تحفظ کے لئے تاحیات استثنیٰ دلوانے کی جدوجہد میں کامیاب رہا تاہم شہبازشریف نے وزرائے اعظم کے استثنیٰ کے ایشو سے گریز کرکے چالاکی دکھائی کیونہ اگر وزرائے اعظم کے استثنیٰ کو منظور کیا جاتا تو خان فوری رہا ہوسکتا تھا اور مقتدروں اور محکوم حکومت کے حلق کی ہڈی بن سکتا تھا۔ آئین میں اگرچہ صدر مملکت کے دوران صدارت استثنیٰ کا پرو ویژن ہے لیکن تاحیات یہ معاملہ نہ قانون وانصاف کے مطابق ہے نہ دین میں اس کی گنجائش ہے۔ شریعت کورٹ کے سابق جج اور مفتی دارلعلوم تقی عثمانی کا اس حوالے سے فتویٰ نہایت اہم اور واضح ہے۔
عسکری چین آف کمانڈ میں حالات حاضرہ اور حربی تقاضوں کے مطابق دیگر ممالک بشمول بھارت چیف آف ڈیفنس کی پوزیشن ہے اور تمام کمانڈز وشعبوں بشمول کنونشنل، سائبر، انفارمیشن اور بروقت فیصلوں اور اقدام کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ سابق جنرل عامر ریاض کے مطابق یہ تجویز 2005 سے زیر غور تھی کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے مشاورتی عہدے کی جگہ چیف آف ڈیفنس کی پوزیشن لانے پر عمل کیا جائے۔ ہمیں یہ منطق تسلیم لیکن دودھ کا جلاچھا چھ سے بھی ڈرے کے مصداق پاکستان کی سات دہائیوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ کے ہر دور میں اقتدار کے کھیل کے پیش نظر ہمیں مستقبل میں بھی خدشات ہی نظر آتے ہیں۔ سینیٹ میں پی ٹی آئی و جے یو آئی کے سینیٹرز کے ترمیم کو ووٹ دینے اور مجبوری ظاہر کرنے سے ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ تو سپریم کورٹ کو بے اثر بنانے اور آئینی کورٹ کا قیام نیز سپریم جوڈیشل کمیشن کو ججز کے تبادلوں کا صدر کی منظوری سے اختیار دینے کا ایشو ہے، بلکہ عدالتی نظام کو ناکارہ بنا کر ایگزیکٹو کو مضبوط بنانا ہے۔ عدالتوں کو بے اثر بنانے کے اس اقدام پر ملک بھر کے تمام بااثر وسینئر وکلاء سابق منصفین وبیوکریٹس اور عوام اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اندھیرے مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
ہمارا مطمع نظر تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اصل حکمرانوں بلکہ ہائبرڈ رجیم کے مداریوں نے سیاسی بچہ جمہوروں کو اپنی ڈگڈگی پر اس طرح نچایا ہے کہ اب ان کے لئے محتاجی اور جی جناب کے سوا کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ ملک بے آئین وبے انصاف ہے، وطن عزیز اور عوام کے مفادات اور حقوق پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں اور معاملات حکم حاکم مرگ مفادات کی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ بقول شاعر،
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کوہے کھیل ہے دیوانے کا
اگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا کے مصداق اب 28 ویں ترمیم کا غلغہ ہے جس کے ذریعے جو بگاڑ رہ گئی ہے اس کی تکمیل بھی ہوجائے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here