خالد محمود ملک: خوشبو کا شاعر!!!

0
43
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

خالد محمود ملک کا تازہ شعری مجموعہ جو زیرِ اشاعت ہے خوشبو، رنگ اور تتلی اپنی نوعیت میں اِس لیے منفرد ہے کہ یہ ایک گلدست صد رنگ ہے جس کی خوشبو نے گلستانِ شاعری کو اِس قدر معطر کر دیا ہے کہ رنگ برنگ کی تتلیاں اِس کے ارد گِرد محوِ طواف ہیں۔ خوشبو اور رنگ سے مجھے ظہیر کاشمیری کا مشہور زمانہ شعر یاد آ گیا۔ کہتے ہیں!
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اِس سے قبل اِن کا شعری مجموعہ پھول سے لپٹی آگ یعنی شعل گل شائع ہو کر اہلِ علم و ادب سے داد پا چکا ہے۔ آپ کی شاعری میں پھول، خوشبو، رنگ اور تتلی کا ذکر باکثرت ملتا ہے۔ یہ رویہ اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ نرم طبع انسان ہیں جو دوسرے انسانوں کو خارِ مغیلاں سے زخمی کرنے کی بجائے پھول اور خوشبو سے انسانوں میں امن و اماں، محبت و مروت، دلداری و جانسپاری کی کلیاں بکھیر رہے ہیں۔ معروف شاعرہ پروین شاکر بھی خالد محمود ملک کی طرح خوشبو کی شاعرہ تھیں اور ان کے پہلے شعری مجموعہ کا نام بھی خوشبو تھا۔ میں خالد محمود ملک کو اِسی لیے خوشبو کا شاعر کہتا ہوں کہ وہ معاشرے میں محبت کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ تتلی کا رنگ اور پھول سے گہرا رشتہ ہے۔ خوشبو ، پھول اور تتلی اِن کی شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوئے ہیں۔ اردو اور فارسی شاعری میں گل و بلبل کا تعلق بھرپور انداز میں ملتا ہے۔ دونوں میں محبت کا ایک رشتہ پایا جاتا ہے۔ لیکن خالد محمود ملک نے گل و بلبل کے رشتے کو نیا رنگ دیا ہے اور وہ رنگ خوشبو اور تتلی کا ہے۔ یہ آپ کی جدت طرازی کی شاندار مثال ہے۔ روایت کے ساتھ ساتھ شعری جدت و حدت آپ کے کلام میں جابجا جلوہ نما ہے۔ آپ کی شاعری میں روحانی اور مذہبی جذبات و احساسات کی فراوانی ہے۔ کتاب کا حص اول عقیدت کی شاعری پر مشتمل ہے جس میں حمد، نعت اور منقبت ہے۔ کتاب کے حص دوم میں غزلیں ہیں۔ گویا یہ شعری مجموعہ دو آتشہ ہے۔ روحانیت اور رومانیت کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کی شاعری میں اپنے گاں کی یادوں اور بچپن کے دنوں کا ذکر شدت سے ملتا ہے۔ کہتے ہیں!
چمن کے بوٹے بوٹے اور سب کلیوں سے واقف ہوں
یہ میرا گاں ہے، اِس کی میں سب گلیوں سے واقف ہوں
میر تقی میر نے کہا تھا!
پتا پتا، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
میر تقی میر نے اِس شعر میں تلمیع اور استعارہ سے کام لیا ہے۔ یہ انگریز کی ہند پر حکومت کی طرف اشارہ ہے کہ عوام تو ہماری حالتِ زار سے واقف ہیں لیکن چمن کے گل یعنی حکمران ہماری ناگفتہ بہ حالت سے نابلد ہیں۔ لیکن یہاں خالد محمود ملک کا معاملہ میر تقی میر سے بالکل مختلف ہے۔ آپ ایک عوام دوست ہوتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ وہ جہاں چمن کی کلیوں سے واقف ہیں وہاں چمن کے خار و خس سے بھی واقف ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو وہ جگر مراد آبادی کی طرح چمن پرست ہیں جس نے کہا تھا!
گلشن پرست ہوں، مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نبھا کیے جا رہا ہوں میں
آپ کی شاعر ی نرم و نازک انسانی رویوں کی عکاس ہے۔ شاعر طبعِ حساس رکھتا ہے۔ ہر خوبصورت چیز چاہے وہ سبز کہسار ہوں، رواں دریا ہوں، گنگناتے چشمے ہوں، حسین وادیاں ہوں یا حسین صورتیں ہوں وہ شاعر کو بے حد متاثر کرتی ہیں۔ ہجر و وصال بھی زندگی کا ایک تجربہ اور سانحہ ہے۔ حسن و عشق کی اپنی کشش، کشاکش اور کشمکش ہے۔ عشق ایک جذبہ ہی نہیں ایک زمزمہ اور ولولہ ہے۔ بقولِ میر تقی میر!
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
یہ جنونِ عشق ہر کس و ناکس کو عطا نہیں ہوتا۔ حسنِ بے پرواہ دل پر چرکے لگاتا ہے۔ استاد فوق لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے
حسن ادھر ہے ناز میں، عشق اِدھر نیاز میں
مارا گیا غریب دل دونوں کی ساز باز میں
اِس جنونِ عشق کو خالد محمود ملک یوں بیان کرتے ہیں
تعلق ختم ہو لیکن محبت کی روایت میں
میں لڑ پڑتا ہوں اکثر خود سے، تیری ہی حمایت میں
اِس جنونِ عشق پر مجھے اپنی ایک غزل کا شعر یاد آ گیا جو میرے شعری مجموعہ متاعِ درد میں ہے
وہ جنونِ عشق کی وحشتیں، وہ فراقِ دوست کی لذتیں
کبھی نقشِ پا پہ رکھی جبیں، کبھی نقشِ پا کو مٹا دیا
شاعر حسنِ مجسم کا گرویدہ اور دلدادہ ہوتا ہے۔ حسن میں وہ مقناطیسی قوت ہے جو دلوں کو مسحور کر لیتی ہے
اس صورتِ حال کو نہایت خوبصورتی سے نئے انداز میں خالد محمود ملک نے زیبِ شعر کیا ہے۔ کہتے ہیں
جو ترے پیشِ نظر جام خوشتر میں تھے
وہ ترے ہجر میں کب حالتِ ابتر میں تھے
حافظ شیرازی نے قرآنِ مجید کی ایک آی مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا
آسماں بارِامانت نتوانست کشید
قرع فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
اِس تلخ حقیقتِ تخلیق اور وعد الست کو خالد محمود ملک نے یوں بیاں کیا ہے
تم نے جس بار کو گراں سمجھا
میں تھا پاگل اسے اٹھا لایا
خالد محمود ملک کی شاعری میں زیر دستوں، مجبوروں، ناداروں ، محروموں، غریبوں اور مظلوموں کی حمایت میں بھی صدائے احتجاج ملتی ہے۔ یہ ان کے انقلابی رنگ کی ایک جھلک ہے۔ کہتے ہیں
کس قدر کم ملی ہے مزدوری
کون جانے کسی کی مجبوری
جو چیز خالد محمود ملک کو شاعری میں ایک جداگانہ رنگ و آہنگ کا نمائندہ قرار دیتی ہے وہ ان کا شاعری میں ان استعاروں کا تعارف ہے جو خوشبو، رنگ اور تتلی کو نئے ادبی معنی دیتا ہے ۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here