چہرے نہیں نظام کو بدلو!!!

0
32
شبیر گُل

حکومتیں بدلتی رہیں، جھنڈے بدلتے رہے،چہرے بدلتے رہے لیکن ایک چیز نہ بدلی، عوام کی قسمت، عوام کی تقدیر لیکن اب مزید نہیں ! یہ ملک جس کی مٹی سونا اُگلتی ہے۔ چار موسموں کی رحمت رکھتی ہے۔ زمین ہیرے جواہرات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن آج بھی عوام بھوک۔ بے بسی اور ناانصافی کی تصویر کیوں ہے؟۔ اصل مسئلہ حکومتیں نہیں نظام ہے۔ نظام۔ وہی انگریز کا چھوڑا ہوا بوسیدہ نظام۔ جو نوکر کو مالک بنادیتاہے افسر شاہی کو فرعون بناتا ہے۔ اور عوام کو وہی غلام رکھتا ہے۔ عدالتیں انصاف کی بجائے تاخیر۔ پولیس تخفظ کی بجائے خوف کی علامت۔ بیوروکریسی خدمت کی بجائے تکبر کا مینار۔ اور سیاست وعدوں کاقبرستان۔ یہ سب اسلئے کہ ہم آج بھی اسی استعماری ڈھانچے میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام۔ وہی پولیس ایکٹ۔ وہی بیوروکریسی۔ وہی انتخابی نظام۔ وہی پرانا شکنجہ۔
بس چہرے بدل گئے لیکن زنجیر نہیں بدلی، اب فیصلہ ہمارا ہے، کیا ہم اسی نظام کے غلام رہینگے یا اٹھیں گے۔ عدل، امانت ، دیانت پر مبنی نیا نظام کھڑا کرینگے۔ وہ نظام جو اللہ اور اس کے رسول اصلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں پر قائم ہو جہاں حکمران خادم ہو۔ قانون سب کے لئے برابر ہو اور ریاست واقعی اسلامی ،فلاحی ریاست کہلائے۔ جماعت اسلامی اکیس سے تیئس نومبر کو مینار پاکستان پر ایک تاریخی اجتماع عام کر رہی ہے۔ جو جلسہ نہیں انقلاب کی نوید ہے، یہ مخض سیاست نہیں۔ ایمان اور خدمت کی جنگ ہے۔ آئیں ظلم کی دیواریں گرا دیں۔ نظام زر کو بدل دیں۔ اور پاکستان کو اسکی حقیقی منزل تک پہنائیں۔ جب عوام اٹھتیں ہیں تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ آئیں اس ظلم کے نظام کے خلاف۔ آج ملک اندرونی خلفشار میں ہے۔ مہنگائی اور کرپشن نے معاشی دہشتگردوں کو بے لگام کر رکھاہے۔ ہر ملک کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہوا کرتی ہے۔ جس میں اسٹبلشمنٹ، جوڈیشری،پارلیمنٹ اور میڈیا اہم ستون ہوا کرتے ہیں۔ مگر یہ چاروں ستون انتہائی داغدار اور بدبودار ہیں۔ جنہوں نے ملکر سسٹم کو تباہ کیا ہے۔ جرنیلوں نے نظام کو کرپٹ کیا ہے۔ جوڈیشری نے معاشرتی بے انصافی اور قوم کو مایوس کیا پارلیمنٹ اسٹبلشمنٹ کی باندی اور ربڑ سٹمپ ہے۔ جس کے اکثر ممبرز کرپٹ اور بکا مال ہیں۔ جنہیں ضمیر بیچتے ہوئے کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں ہوتی۔ ریاست کا چوتھا ستون میڈیا بھی غلاظت سے بھرا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہویا پرنٹ میڈیا۔ سوشل میڈیا ہویا ڈیجیٹل میڈیا۔ گندگی اور ذلالت کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف اندھیرا اور مایوسی ہے۔ قوم نے چالیس سال پیپلز پارٹی اور اسکی جمہوریت کو بھگتا ہے۔ ن لیگ پینتیس سال سے جرنیلوں کے بوٹ پالشی سے ووٹ کو عزت دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے قوم کو بوری بند لاشیں،لسانیت ، کراچی کی پڑھی لکھی کریم کو اپاہیج اور مفلوج کیا ہے۔ یہ جمہوری اتنے ہیں۔ کہ ہر دور میں جرنیلوں کے تلوں کو انکاوطیرہ ہے۔ تبدیلی کے نام پر جرنیلوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو پروان چڑھایا۔ جس نے بیہودہ سیاست اور متعفن کلچر کو رواج دیا۔ اسکے سوشل میڈیا ٹائیگرز نے اخلاقی بے راہ روی اور گٹر کلچر پیدا کیا۔ سیاست کے نام پر ایک کلٹ ہے۔ جس میں ساری جماعتوں کے کچرہ کو جمع کیا گیا ہے۔ جو شخصیت پرستی میں اندھے ہیں۔ کانوں سے بہرے اور انتہائی بدتہذیب ہیں۔ مذہبی راہزن فضل الرحمن نے جمہوی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں مذہب کو بیچا۔ مذہبی غنڈہ گردی اور ٹی ٹی پی کی دہشتگردی سپورٹ کیا۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تحریک لبیک نے متشدد کلچر اور مذہبی جنونیت کو رواج دیا۔ یہی وہ گندے انڈے ہیں جنہوں نے جرنیلوں کی پیٹھ چوم چوم کر اقتدار اور خوشنودی تو حاصل کرلی۔ مگر قوم کو نہ تو جمہوری کلچر نصیب ہوا نہ اخلاقیات۔ قوم کو جرنیلی گملوں کی پیداوار جمہوریت اور پینتیس سال ڈکٹیٹر شپ نصیب ہوئی۔ یہی وہ اسٹبلشمنٹ کی داشتائیں ہیں۔ جنہوں نے قوم کے بچے بچے کو آئی ایم ایف کی غلامی میں جکڑ دیا ہے۔ عیاش جرنیل جن من پسند مہروں کو لاکر ملک کو لوٹتے ہیں۔ قیمتی پلاٹوں کی بندر بانٹ کرتے ہیں۔ بیرون ملک پلازے، جزیرے اور قیمتی پراپرٹیز خریدتے ہیں۔ اور یہ وطن پرست ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ ہر ادارے میں ریٹار جرنیل اور برگیڈئیر گھس بیٹھتے ہیں۔ جو ان جمہوری بدمعاشوں کے ساتھ ملکر ملک لوٹتے ہیں۔ قیمتی پلاٹوں کی بندربانٹ کرتے ہیں۔ بیرون ملک پلازے اور جزیرے خریدتے ہیں۔ جائدادیں بناتے ہیں۔ اور قوم کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔ لوگوں کو غدار قرار دیتے ہیں۔ ایک کرنل کنویں میں گر گئے۔ فوجیوں نے رسہ کنویں میں ڈالا۔ جیسے ہی کرنل اوپر آتے، فوجی رسہ چھوڑ دیتے اور کرنل صاحب کو سیلیوٹ مارتے، کرنل پھر کنویں میں گر جاتے۔ ایک تجربہ کار فوجی نے مشورہ دیا کہ کسی بریگیڈئیر صاحب کو بلا کر انہیں تکلیف دیتے ہیں تاکہ کرنل صاحب کو سیلیوٹ نہ مارنا پڑے۔ بریگیڈئیر آئے، انہوں نے بھی رسہ ڈالا اور کرنل نے رسہ پکڑ لیا۔ جیسے ہی کرنل کنارے کے قریب پہنچے اور ان کی نظر بریگیڈئیر پر پڑی، انہوں نے رسہ چھوڑ دیا اور بریگیڈئیر صاحب کو سیلیوٹ مارا اور پھر سے کنویں میں گر گئے۔ بار بار یہی ہوا۔ آخر کار کرنل صاحب کی کنویں سے آواز آتی ہے، “کسی سویلین کو بلا۔ 78 سال ہو گئے، رسہ کھینچتے ہوئے کچھ، نہیں کر سکے۔ کبھی پیپلز پارٹی ، کبھی ن لیگ اور کبھی پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ کے ٹاٹ اور اردلی بنا کر لایا جاتا ہے۔ خدارا اب قوم پر مہربانی اور رحم کرو اور کسی جینئیوئن غیر اردلی اور سویلین کو موقع دو۔ اسے پورا مکمل اختیار دو۔ کہ شاید کنواں صاف ہوجائے۔ گزشتہ دنوں ستائیسویں ترمیم کے ذریعے جرنیلی رجیم۔ صدر اور وزیراعظم کو تاحیات امیونٹی فراہم کی گئی ہے۔ لوٹو اور پھوٹو کی مکمل آزادی۔ یاد رہے کہ پھانسی کی سزا پانی والی۔ ہزاروں بنگلہ دیشوں کی قاتلہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم کو بھی امیونٹی حاصل تھی۔ انتہائی طاقتور تھی۔ جسے آج کہیں جائے پناہ نہیں۔ ہمیشہ کا اقتدار اعلی اللہ رب العزت ہے۔
قارئین! موجودہ سیاسی کلچر اور نظام جن کا نہ کوئی منشور ہے۔ نہ پارٹی الیکشنز۔ وہ فرسودہ نظام، وہی پرانا گند۔ وہ پرانے چہرے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے بعد اسکی بیٹی۔ اور انکے بچے۔ یہی حال ن لیگ کا ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف۔ خمزہ شریف، مریم نواز۔ ایک طرف مفتی محمود کے بعد اسکا بیٹا۔ جمیعت علما اسلام پر قبضہ جما رکھا ہے۔ فضل الرحمان اسٹبلشمنٹ کی دستار ہے۔ دوسری طرف خادم حسین رضوی کے بعد اسکا بیٹا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں ،یہی اقربا پروری، مذہبی اور سیاسی کلٹ نظر آئے گا۔ یہی خاندان نظر آئیں گے۔ نہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی غیرت مند لیڈر ہے ا ور نہ مذہبی جماعتوں میں۔ جو ن لیگ اور بھٹو خاندان کو چیلنج کرسکے ، جو فضل الرحمن اور سعد رضوی کو چیلنج کرسکے۔ قوم نے ضیاالحق کا اسلامی نظام۔ مشرف کا سب سے پہلے پاکستان۔ سیاسی جماعتوں کی اسٹبلشمنٹی جمہوریت دیکھ لی۔ فضل الرحمن کا مذہبی لبادہ۔ کئی بار دیکھا اور آزمایا۔ جرنیلوں کو کئی بار آزمایا۔ نہ ملک ترقی کرسکا۔ نہ ہم آئی ایم ایف کی غلامی سے نکل سکے۔ قوم نے ان سیاسی دہشتگردوں۔ معاشی لٹیروں۔ مذہبی رہزنوں کو آزما لیا۔ چوروں اور جرنیلوں کو آزما لیا ہے۔ اس لئے قوم کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے۔ ستر سالہ روایتی سیاست سے چھٹکارے کا۔ لسانیت ، فرقہ بندی ،فحاشی اور بے حیائی سے آزادی کا۔ ملک سے بددیانتی اور کرپشن کے خاتمے کا۔ وہ راستہ صرف جماعت اسلامی کی طرف جاتا ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی طرف جاتا ہے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔ جو بکا مال نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسے خریدا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ کی راکھیل۔ جماعت اسلامی تعلیم، صحت ، زراعت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ فری ہاسپیٹلز ، فری تعلیم کے سنکڑوں ادارے پاکستان کے طول وعرض میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بنو قابل پروگرام کے تحت بیس لاکھ نوجوانوں کو فری آئی ٹی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ الخدمت کے رضاکاروں سیلاب ہویا طوفان ضرورتمندوں کے لئے امدادی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں۔ حالیہ سیلاب میں لاکھوں لوگوں کو پانی سے نکال کر مخفوظ مقام تک پہنچایا۔ ہزاروں جانیں بچائیں۔ جماعت اسلامی کے کارکن ایمان و دیانت کے اہل اوراجلے کردار کی مالک ہیں۔ خدمت خلق میں ان کاکوئی ثانی نہیں۔ اخلاقی قدروں اور نظریہ پاکستان کے امین ہیں۔ جماعت اسلامی قرآن و سنت کی حقیقی ترجمان ہے۔ اس لئے قوم کو چاہئے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اسکو ووٹ دے کر نظام کو بدلیں۔ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے۔ پاکستان کی بقا اور وقار کیلئے۔ قرضوں سے چھٹکارا کے لئے۔ جماعت اسلامی کا ساتھ دیجئے۔قارئین!ووٹ ایک مقدس امانت ہے۔ اسکا صیح استعمال کیجئے۔ جن کو بار بار آزمایا ہے انہیں ووٹ مت دیجئے۔ ریاست اور سسٹم کے گندے اور مکروہ چہروں سے مملکت کو بچائیے۔ یہ چہرے ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ اسلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ اپنے لئے۔ اپنے بچوں کے لئے۔ پاکستان کیلئے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here