جمیل عثمان کا تعارف ہم سے کوئی 25 سال پہلے ہوا اور انکی پہلی کتاب ”جلاوطن کہانیاں” اس کی وجہ تھی۔ اور اس کتاب کا جو 1971 کے ملک ٹوٹنے کے المیہ اور 93 ہزار فوجوں کے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی وجہ تھی جو انہوں نے بخوبی بیان کی تھی افسانوی انداز میں کبھی کبھی اس کتاب کو ہم پڑھ لیتے ہیں کہ یہ جمیل عثمان کی آپ بیتی انکی ہی زبانی سننے کا مزہ ہے لیکن کافی افسوس بھی ہوتا ہے اس کے بعد جمیل عثمان سے ملاقاتیں رہیں وہ کتابیں لکھتے رہے اُن کا ایک افسانہ ”فائٹر ٹپ” حلقہ ارباب ذوق کے کتابی سلسلے ”نئی بستی” میں پڑھنے کو ملا تو لگا ان کا افسانہ لکھنے کا حسن برقرار ہے۔ جس نے انہیں بڑے لکھاریوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ گویہ افسانہ جلاوطن کہانیاں کے بیس سال بعد لکھا گیا تھا اس دوران اُن کی ٥ کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں۔ ”پری فانے کا مسافر” ”بساط” روشنی کے درخت میرے لفظ میرے نشید ہیں اور بوجھو تو جانیں کچھ کتابوں کا جائزہ لیا کچھ کو پڑھا اور ہمارے پڑھنے سے کہیں زیادہ اُن کے لکھنے اور منظر عام پر لانے کی تھی۔ پھر جو کتابیں آئیں وہ یہ تھیں ”دادا جان کے زمانے میں ”دی کلائوڈ” آئوموتی نکالیں” نصف صدی کے قصّے” اور IMAM IN AMERKA کے بعد زیر نظر کتاب ”مکالمہ ادب ” ہے۔ یہ ہمارے فرصت کا وقت ہے اور ہم نے جائزہ لیا تو لگا کھیت ابھی ہرلے بھرے ہیں۔
جمیل عثمان کو ہم اس کی داد دینگے اور کہنا چاہینگے کہ ہر چند، انٹرنیٹ کے آنے کے بعد تحریر اور کتاب کی شکل ناپید ہوچکی ہے لیکن کتاب ایک ایسی چیز ہے جیسے آج بھی ہم ایسے لوگ اپنی لائبریری میں سجاتے ہیں کیا دور تھا کہ ہر تعلیم یافتہ کے گھر میں لائبریری ہوتی تھیں۔ اور یاد دوستوں کا مشغلہ ہوتا تھا کہ شام کے وقت فرصت کے اوقات میں بیٹھ کر ان پر گفت وشنید ہوتی تھیں ”آگ کا دریا” آئی تو ادبی دنیا میں تہلکہ مچ گیا صدیوں کی کہانی کتاب میں بند کر دی گئی۔ شوکت صدیقی کی ناولیں۔ خدا کی بستی اور جانگلوس نے ادب سے جڑے لوگوں کو گھروں میں بند کردیا۔ اس دور کے یہ ایوارڈ یافتہ ناول تھے آگ کا دریا پر پابندی لگی تو قرة العین حیدر انڈیا واپس چلی گئیں۔ وہیں ان کو پدم شری ملا اور جو رہ گئے وہ رہ ہی گئے۔ بڑے بڑے لکھنے والے تھے لیکن آمروں نے انہیں پابند کرنا چاہا جو ممکن نہیں تھا اور وقت کے ساتھ یہ چمن اجڑتا گیا۔ کیونکہ پابندی لگانے والے نہ خود پڑھتے تھے اور نہ ہی لکھنے پڑھنے دیتے تھے اور رہی سہی کثر میڈیا نے پوری کردی اب جو کچھ ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے جس کے عادی ابھی تک نہیں ہو سکے۔ راولپنڈی سے محترم گلزار جاوید نے مشہور زمانہ میگزین کو ”چہارسو” کو انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر ڈال دیا ہے لیکن پڑھنے اور اس پر لکھنے پر وقت ہوتی ہے مجبوری ہے کتاب چھپوانا اور پھر لوگوں تک پہچانا دو مختلف مشکل کام ہیں۔ لوگوں کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ جمیل عثمان کا مضمون جو انہوں نے بشیر قمر کی کتاب جو قاہرہ(مصر) کا سفر نامہ ہے پر لکھا ہے اُن کی کتاب سے زیادہ دلچسپ ہے اور لکھنے والے کو ادیبوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اور ہم بشیر قمر سے زیادہ جمیل عثمان کو داد دینگے۔ کہیں کہیں سے پڑھا ہے اس کی وجہ وہ ہی ہے جو بیان کر چکے ہیں کاش یہ ہی تحریر کاغذ پر پڑھتے تو مکمل پڑھتے جمیل عثمان نے اپنی اس کتاب میں جو زیر تبصرہ ہے میں جن لوگوں کا ذکر کیا ہے وہ ادب کی دنیا میں محدود طور پر جانے جاتے ہیں لیکن انکے انداز تحریر نے انہیں بڑا بنا دیا ہے۔ اور ہم یہ کہینگے کہ آج کے دور میں اگر سراہنے والا نہ ہو تو وہ نام پیدا نہیں کرسکتا۔ ہم پچھلے 15 سال سے مسلسل کالم لکھ رہے ہیں لیکن کہہ سکتے ہیں ہمیں کوئی نہیں جانتا اس کی وجہ یہ ہی ہے جو یہاں رہتے ہیں وہ سب ہماری عمروں کے بڈھے ہیں اور پچھلے پچاس یا ساٹھ سال پاکستان میں گزار کر آئے ہیں۔ وہاں انہوں نے کچھ نہیں پڑھا اور نہ کسی کو جانا۔ اور یہاں آکر اللہ اللہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں فجر کے وقت اٹھتے ہیں پھر سو جاتے ہیں اور رات کو عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے ہیں ان کا کوئی شوق نہیں ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سورہ رحمن میں بار بار کہہ رہا ہے جگا رہا ہے اور وہ اُن سے چیزوں کو فضول ہی سمجھتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں جمیل عثمان اندھیرے گھپ اندھیرے میں جہاں تیز ہوا کا گزر رہے ہیں اردو ادب کی کتابیں لا رہے ہیں اس کا کریڈٹ پبلشر، رسول مطبوعات کو دینگے۔ اس سے پہلے جس نے قمر علی عباسی کی کتابیں اور سفرنامے شائع کئے وہ ویلکم بک پورٹ کو یہ اعزاز دے چکے ہیں۔ مکالمہ ادب میں جو قابل ذکر ہستیاں جمیل عثمان صاحب لے کر آئے ہیں ان میں ”ابوالحسن نقوی” رفیع الدین راز، یونس شرر، آصف الرحمن طارق ”ڈاکٹر عبداللہ، امان اللہ خان دل، سید محمد سلمان یونس کی ادب کے ساتھ محبت کو سنوار کر پیش کیا ہے بالخصوص ایک جانے پہچانے لیکن انجانے ابوالحسن نقوی ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر ہمیں احساس ہوا کہ اُن کے پاس بھی مستخصر حسین تارڑ کے دوست احباب ہوتے۔ جنہوں نے انکی ناول بہاوء کو قرة العین حیدر کی ”آگ کا دریا” کے اوپر کھڑا کردیا۔ اس میں قسمت کا خل ہے کہ 1960 کے بعد زیادہ تر لکھنے والے یوں ہی تھی یا وہ ان کا روزگار تھا۔ میں نغمی صاحب کے بارے میں پڑھ کر خراج عقیدت لکھ رہا ہوں۔
دوسری شخصیات میں ایک بڑے اچھے افسانہ نگار آصف الرحمن طارق ہیں جن کی موجودگی کسی افسانہ کی نشست میں سب کی پسند تھی امان اللہ دل کے قطعات اور شاعری ان کی پہچان نعت اور غزل ان کی پہچان اور ایک عمدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ یونس شرر نیویارک میں رہے اور ادب میں لہریں پیدا کرتے رہے۔ علیگڑھ المنائی کے عبداللہ ایک متاثر کرنے والی شخصیت رہے ہیں شاعری اور تقریب کے میدان میں سید محمد سلمان یونس نے کراچی پر کتابیں لکھ کر مورّخ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اپنی تحریر سے کراچی کو آراستہ کیا ہے جو اب ایسا نہیں ہے اس کے ساتھ ہی اگر ہم جمیل عثمان کی کتاب افسانے کے مجموعہ ”نصف صدی کے قصّے” کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔ جس میں ان کے23 افسانے شامل ہیں۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں یہ اس دور کی بات ہے اور افسوس کہ ہم اپنوں میں چھپنے، موتیوں کی پہچان نہیں کر پاتے۔ کتابوں کا اجراء ہوتا ہے ہم جاتے ہیں کتاب ملتی ہے اور گھر لاکر کہیں کونے میں ڈال دیتے ہیں۔ خیال رہے جمیل عثمان اور ایسے دوسرے جب کچھ لکھتے ہیں تو وہ سراہنے کے لئے اور پہچان کے لئے لکھتے ہیں کاش ہم سورہ رحمن کو غور سے سنیں جس میں جگہ جگہ کہا گیا ہے کہ تم کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے ان نعمتوں میں لکھنے والوں کی تحریروں بھی ہیں اور یہ نعمتیں ہیں روح کی غذا کی، جمیل عثمان کو ہم خراج عقیدت پیش کرینگے!!!۔
٭٭٭٭٭















