”گناہ ”

0
39
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے امید ہے مضمون کا موضوع دیکھ کر قارئین کرام گھبرائے نہیں ہونگے کیونکہ ”گناہ” ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہر کسی کو نفرت ہوتی ہے چاہے وہ گناہ کرے جان بوجھ کر کرے اس کو معمولی جان کر ہی کرتا ہو لیکن پسند اسکو بہرحال نہیں ہوتا یہی اس گناہ کی فطرت ہے کرنے والے کو بھی پسند نہیں ہوتا اسکا ضمیر اس کو کچوکے لگاتا ہے جلد یا بدیر اس پر ندامت یا پھر اس فعل کا بوجھ ضرور پریشانیوں میں مبتلا کرتا ہے آج ایک حکایتی کہانی لیکر پیش خدمت کرتا ہوں امید ہے قارئین کرام پسند فرمائیں گے ۔ ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔ بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اس کے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فورا بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فورا خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ سخص وہیں موجود تھا۔ سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہوگیا کہ اس کی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔ اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اس کا گناہ سنایا اور کہا ۔ آج سے تم میرے مشیر خاص ہو، دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔ تو بادشاہ نے فورا اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟ سفید پوش نے کہا اللہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانی چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلی عہدہ مل گیا۔۔ سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔ ابو اُٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہوگئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر ۔۔ میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔ کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟ بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔ کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد اسے اپنی جیت اور عورت اپنی جیت کا نام دیتی ہے۔ اور اگلی بار ایک نیا شکار ہوتا ہے۔۔ پہلی بار گناہ پر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا ۔ یہ وہ وقت ہوگا جس ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔ مگر دوسری بار یہ شدت کم ہوجائے گی۔ اور پھر ختم ۔ پھر انسان مست رہتا ہے۔ اور خوش بھی۔ مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔ گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔ کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی۔ آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے، خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔ اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ دشواریوں سے گزرنا ہوگا، خدارا اس لعنت سے بچیں ۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں ، بچنا کمال ہے ، باز رہنا کمال ہے ۔ سوچیے ، نکلیے اس گناہ سے کیوں حیا کا ُاٹھ جانا، ایمان کا اُٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔ خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔ آمین۔ 1. خطا، قصور، لغزش۔ 2. ایسا فعل جس کا کرنے والا مستحق سزا ہو، جرم، ناپسندیدہ فعل، فعل ممنوعہ، بری بات۔ 3. شریعت :- ایسا فعل کرنا جو شرعا ممنوع ہو اور کرنے والا عذاب کا مستوجب ہو، اوامر اور نواہی کی خلاف ورزی کرنا، نافرمانی کرنا۔ 4. طریقت :-اپنے آپ کو دنیا میں منہمک رکھنا اور خلق سے غافل ہونا۔[1] مذاہب میں غیر اخلاقی کام انجام دینے کو گناہ کہا جاتا ہے۔ قدیم مذاہب میں گناہ کا تصور نہیں تھا اس لیے کہ اچھائی اور برائی اور پھر اس دنیا کے بعد کی بھی کوئی واضح تصویر ذہنوں میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ ان مذاہب میں جہاں خدا کا تصور ہے اور اس کی بندگی افضل ہے مثلا یہودیت مسیحیت یا اسلام ان میں گناہ کا تصور واضح ہے۔ خدا کے احکام کی ذرا سے سرتابی یا عدول حکمی گناہ کا سبب بنتی ہے، لیکن ایسے مذاہب جن میں خدا کا تصور نہیں ہے مثلا بدھ مذہب وغیرہ وہاں گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہودی مذہب کے ابتدائی دور میں شخصی گناہ کے علاوہ اجتماعی یا قومی گناہ بھی ہوتے تھے۔ مثلا اگر قوم بت پرستی کا شکار ہوجاتی تو پوری قوم کو کفارہ ادا کرنا ہوتا اور اسے پاک کیا جاتا۔ چند آدمیوں کے جرائم کا عذاب پوری قوم پر نازل ہو سکتا تھا لیکن مجرموں کو سزا دے کر اس سے بچا جا سکتا تھا۔ مسیحیت اور اسلام میں اجتماعی گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام میں گناہ کے بارے میں واضح تصورات اور احکامات موجود ہیں لیکن مسیحیوں میں اس پر کافی اختلافات ہیں۔ بعض مسیحی انسانی اعمال کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں۔ نیک، نیک نہ بد، بد۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ تمام اعمال جو نیکی کی تعریف میں نہیں آتے لازم نہیں کہ وہ برے ہوں۔ مثلا جوئے کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت تک برا نہیں ہے جب تک کوئی فرض متاثر نہ ہو لیکن بعض دوسرے جوئے کو بذات خود برا سمجھتے ہیں۔ مسیحی سینٹ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان باتوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جو نیکی یا بدی کے زمرے میں نہیں آتیں اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوتا ہے۔ مغربی دینیات میں وہ گناہ، گناہ کبیرہ ہے جو جان بوجھ کر اور اردہ کے ساتھ کیا جائے۔رومن کیتھولک کے نزدیک سات گناہ کبیرہ ہیں: غرور، لالچ، پیٹوپن، ہوس، غصہ، حسد اور کاہلی اور وہ گناہ جو قہر الہی کی دعوت دیتے ہیں وہ ہیں جان بوجھ کر قتل، امردپرستی، غریبوں پر ظلم، محنت کش کو اجرت ادا کرنے میں فریب کرنا۔ ابلیس کا سے بڑا گناہ اس کا غرور تھا محترم قارئین کرام میری دعا ہے کہ ہر انسان گناھ سے دور رہے اور اپنے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی کامیاب ہو، آمین ،ملتے ہیں اگلے ہفتے کسی نہ بحث و موضوع کے ساتھ والسلام خیر اندیش سید کاظم رضا نقوی نومبر ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here