وطن عزیز کے موجودہ حالات خصوصاً پارلیمان کے آمرانہ واقعات اور خلاف آئین اقدامات پر ہمیں اپنے دور طفلی کی وہ پارلیمان یاد آگئی جس کے قائد خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان تھے اور ان کے بڑے بھائی سردار بہادر خان قائد حزب اختلاف تھے، فیلڈ مارشل ایوب خان کے من پسند اور یکطرفہ اقدامات اور غیر جمہوری فیصلوں پر سردار بہادر خان نے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے شوق بہرانچی کے مشہور شعر کو اظہار کا ذریعہ بنایا تھا، برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلّو کافی تھا، ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجام گُلستاں کیا ہوگا”؟ آج چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہی صورتحال سامنے ہے، پارلیمان سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں اُلّو ہی نہیں وہ بھی موجود ہیں جن کا نام لینا گالی بن جاتا ہے۔ یہ سب ایکا ایکی تو نہیں ہوا، کیا ہم اس کیلئے کسی سیاسی جماعت، ادارے، کسی دشمن ملک یا ہنود و یہود کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں یا دور ایوب خان میں حبیب جالب کی اس تضمین کو استعارہ بنا سکتے ہیں، یہ راز اب کوئی راز نہیں، سب اہل گلستاں جان گئے ، ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گُلستاں کیا ہوگا”؟
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں 27 ویں ترمیم کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس کے وجود میں آنے کے بعد وہ تمام تحفظات واضح طور سے سامنے آگئے ہیں، ان کی تفصیل تو مختلف ابلاغ کے ذرائع کے توسط سے قارئین کے علم میں آچکی ہے، سوال یہ ہے کہ جس طریقے سے دونوں ایوانوں میں یہ ترمیم منظور کی گئی ہے کیا آئین و جمہوری تقاضوں کا پاس رکھا گیا ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے بغیر ترامیم کی منظوری کیا آئین و جمہوری تقاضوں کو پورا کرتی ہے؟ دھاندلی اور دبائو کے بل بوتے پر اکثریت کی تشکیل میں الیکشن کمیشن کا کردار اور عدلیہ کے متنازعہ فیصلے کیا کوئی جواز بنتے ہیں، ہر گز نہیں۔ ویسے بھی یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں کہ قانون ساز اداروں کی حیثیت اب ربڑ اسٹیمپ کے سواء کچھ نہیں، ارکان خواہ کسی بھی جماعت سے ہوں اپنے قائد کی جی حضوری کرتے ہیں یا ڈنڈے کے زور پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی اپنی کوئی سوچ، رائے یا دلیل کوئی حیثیت نہیں رکھتی یعنی حکم حاکم مرگِ مفاجات کے خاکم سیاسی ہو یا مقتدر ہو۔
ہم نے سطور بالا میں 27 ویں ترمیم کے حوالوں سے آئینی و جمہوری تقاضوں سے پارلیمان میں رُو گردانی کی نشاندہی تو کی ہے کچھ یہی صورتحال 26 ویں ترمیم لانے کیلئے مقتدرین اور ان کے آلۂ کاروں کیلئے زاد راہ ثابت ہوئی اور بہ آسانی تکمیل کو پہنچی۔ سوچنا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اگر 26 ویں ترمیم پر کان دھرتی تو نئی ترمیم آسانی و سرعت سے پاس ہو سکتی تھی، اگر ایسا ہوتا تو عدالت عظمیٰ و عالیہ کے منصفین کو استعفی دینے کی نوبت نہ آتی اور ہمیں یہ نہ کہنا پڑتا ”اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت”۔ ہم نے اپنے کالم آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا میں حالات حاضرہ کے تقاضوں کے تناظر میں چین آف کمانڈ کی تشکیل کی تائید تو کی تھی لیکن گزشتہ سات عشروں سے مقتدرہ کے وطن عزیز کے سیاسی و ریاستی کردار پر اظہار خدشات بھی کیا تھا، زیر گفتگو ترمیم سے ہمارے تحفظات واضح نظر آرہے ہیں، فیلڈ مارشل کی چیف آف ڈیفنس کی تعیناتی اور 2030ء تک تسلسل بہت سے سوالات کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ مانا کہ وطن عزیز کو اس وقت بھارت و افغان رجیم اور دہشتگردی سمیت بہت سی آزمائشوں و مشکلات درپیش ہیں اور ان کے تدارک و سد باب کیلئے کمانڈ فار میشن کا استحکام لازم ہے لیکن بغض عمرانیہ کی حقیقت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اس سچائی کے پیش نظر سیاسی حلقوں خصوصاً پی ٹی آئی میں منتقمانہ اقدامات پر خدشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اکنامسٹ میں بشریٰ بی بی و خان کیخلاف مرغیوں، سرخ مرچوں اور کالے جادو کے حوالے سے آرٹیکل کی اشاعت شبہات کو تقویت دینے کا سبب اور نزاعی کیفیت بڑھانے کا سامان نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ الزام تراشی کا کھڑاگ مخالفین کا پرانا راگ ہے لیکن خان کی مقبولیت میں نہ پہلے کمی آئی اور نہ اب کوئی ایسی صورت نظر آتی ہے، ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ آرٹیکل 27 پر اعتراضات و احتجاج کا زور ماند کرنے کی غرض سے اکنامسٹ کا یہ شوشا چھوڑا گیا ہے لیکن مقتدرہ کے آلۂ کاروں کا یہ ڈرامہ ان کے کام نہ آسکے گا۔
ہم نے سطور بالا میں وطن عزیز کو درپیش بیرونی خطرات کا ذکر کیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اندرون ملک بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں، عوام جہاں زندگی گزارنے کیلئے پریشانیوں کا شکار ہیں وہیں امن و امان، کرپشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایجنسیوں سے بھی ہراساں ہیں، سی ٹی ڈی، سی سی آئی اے کے مظالم اور کرپشن کے واقعات سے ہر فرد خوفزدہ ہے۔ سی سی آئی اے کے عہدیداروں و ملازمین کی گرفتاریاں کوئی پرانی بات نہیں۔ حالات اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی بشمول میرے وطن جانے سے اس لئے ہچکچاتے ہیں کہ وہاں پہنچتے ہی وہ نوسر بازوں حتیٰ کہ ایجنسیوں کے ہاتھوں نہ لُٹ جائیں۔ ہماری محض استدعا یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ہوں یا ان کے پالتو آلۂ کار حکومتی کار پرداز وطن و عوام کی بھلائی پر توجہ دیں اور سیاسی و مفاداتی منتقمانہ راہ کو اپنانے کے برعکس وہ راہ اختیار کریں جو نہ صرف ملک و عوام کے حق میں بہتر ہو۔ تاحیات اور بعد از حیات سرخروئی اور مثال بنیں۔ بقول حیرت الہٰ آبادی !
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
٭٭٭













