فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
34

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! تاجدار کشور ولایت حضرت سرّی سقطی رضی اللہ عنہ کی مجلس وعظ کا ایک پرسوز واقعہ عشق الٰہی کی کشش کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔فرماتے ہیں کہ ایک دن بغداد کے سب سے وسیع میدان میں ان کا جلسہ وعظ منعقد ہوا جوں ہی انہوں نے تقریر شروع کی ہر طرف آہوں کا دھواں اُٹھنے لگا خشیّت الٰہی کی بیبت سے کلیجے شق ہوگئے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو فرط اثر سے اشکبار نہ ہو۔ اشنائے وعظ میں احمد بن یزید نامی خلیفہ، بغداد کا ایک مصاحب بڑے کروفر سے آیا اور ایک طرف مجلس میں بیٹھ گیا۔ اس وقت آپ یہ فرما رہے کہ تمام مخلوقات میں انسان سے زیادہ ضعیف کوئی مخلوق نہیں ہے لیکن باوجود اس ضعف کے وہ خدا کی نافرمانی کرنے میں سب سے زیادہ جری اور بہادر ہے۔ احمد بن یزید کے دل پر آپ کے پاس جملے کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہیں وہ گھائل ہو کے رہ گیا۔ دل کے قریب ایک سلگتی ہوئی آگ نے ریاست و امارت کی ساری آن کون آن واحد میں خاکستر کرکے رکھ دیا اب اس کے پہلو میں ایک مسکین و درویش کا دل تھا شاہانہ کروفر کی دنیا بدل چکی تھی۔ وعظ کی مجلس ختم ہونے کے بعد جب گھر پہنچا تو ایک نامعلوم، ہیجان سے دل کی دنیا زیرو زبر ہو رہی تھی ساری رات بے چینوں کی اضطراب میں کٹی۔ صبح ہوتے ہی وہ حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا چہرے کی افسردگی، آنکھوں کا خمار اور آواز کی بے خودی بتا رہی تھی کہ یہ اپنے آپ میں نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے اتنے الفاظ کہہ سکا۔ حضور! رات کا نشتر جگر سے پار ہوگیا ہے عشق الٰہی کی آگ میں سلگ رہا ہوں خدا کے سوا ہر چیز سے دل کی انجمن کو خالی کرلیا ہے اب مجھے وہ راستہ بتایئے جو بارگاہ یزدانی تک پہنچاتا ہے۔ میری کشتی بیچ منجھدار میں ہے اسے ساحل تک پہنچا دیجئے۔ حضرت سرّی سقطی رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر تسکین کا ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا جبر و شکیب سے کام لو رحمت الہٰی اس راہ کے مسافروں کی خود دست گیری فرماتی ہے تم نے دریافت کیا ہے تو سن لو کہ خدا تک پہنچنے کے دو راستے ہیں عام راستہ تو یہ ہے کہ فرائض کی پابندی کرو۔ سجدہ عبادت کے کیف سے روح کو سرشار رکھو، گناہوں سے بچو، شیطان کی پیروی سے اپنی زندگی کو مشغول ہونے سے بچائو مشاغل دنیا سے تعلق رکھتے ہوئے سرکار مصطفی علیہ الصّلواة والسّلام کی غلامی کا حق ادا کرو اور خاص راستہ یہ ہے کہ دنیا سے بے تعلق ہو جائو۔ یادالٰہی میں اس طرح بے خود ہو جائو کہ خدا سے بھی سوائے خدا کے کسی دوسری چیز کی طلب نہ رکھو، حضرت سرّی سقطی کی گفتگو ابھی یہیں پہنچی تھی کہ اچانک حضرت احمد بن یزید کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئیں! اور وہ اضطراب میں تھا اللہ تعالیٰ کے عشق کی آگ کی بے خود ومستانہ وار حبیب و دامن کی دھجیاں اُڑاتے صحرا کی طرف نگل گئے۔ کچھ دنوں کے بعد احمد بن یزید کی ماں روتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آبدیدہ ہو کر عرض کیا حضور! میرا ایک ہی فرزند تھا جسے دیکھ کر میں اپنی آنکھوں کی تشنگی بجھاتی تھی۔ چند دنوں سے وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے۔ ہمارے پڑوسیوں نے خبر دی ہے کہ شب وہ آپ کی مجلس وعظ میں شریک ہوا تھا اسی وقت سے اس کی حالت غیر ہوگئی۔ آپ کے چند جملوں نے اسے دیوانہ بنا دیا، آہ! اب مجھے اپنی اولاد کا ماتم کرنا ہوگا۔ حضرت نے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ضعیفہ! صبروشکر سے کام لو تمہارا بیٹا ضائع نہیں ہوا ہے۔ وہ جب بھی میرے پاس آئے گا میں تجھے خبر دوں گا۔ خدا کی طرف بڑھنے والوں پر ماتم کا انداز اختیار کرنا خدا کی وفادار کنیزوں کا شیو نہیں ہوتا۔ چند ہی دنوں کے بعد گرد آلود چہرے ، پراگندہ بال اور ایک سرشار دیوانے کی سبج دھج میں احمد بن یزید حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے چہرے پر نظر پڑتے ہی حضرت نے جلال عشق کا تیور پہچان لیا۔ اٹھ کر سینے سے لگایا خیروعافیت دریافت کی اور بہت دیر تک اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ اسی دوران اس کی ماں کو اطلاع پہنچائی۔ ماں کو جیسے ہی خبر ملی اپنی بہو اور پوتے کو ساتھ لے کر آئی روتے اور پیٹتے ہوئے اس کے چہرے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا: بیٹا! تو اپنی ماں اور بیوی کو چھوڑ کر کہاں چلا گیا ہے؟ تیرے فراق میں روتے روتے ہمارے آنچل بھیگ گئے، انظار میں آنکھیں پتھرا گئیں۔ چل واپس چل اپنے گھر کو آباد کر ہماری امیدوں کا چمن مرجھا گیا ہے پھر سے اسے شاداب کر بیوی نے فرط غم سے منہ ڈھاپ لیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہا میرے سرتاج! آخر ہم سے کیا بھول ہوئی کہ تم اس طرح روٹھ کر چلے گئے۔ جیتے جی اپنے بچے کو تم نے یتیم بنا دیا۔ تمہارے سوا ہمارے ارمانوں کا کون نگران ہے؟ ماں اور بیوی نے ہزار منت وسماجت کی لیکن دیوانہ عالم ہوش کی طرف پلٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ روح پر سرور عشق کا اتنا گہرا نشہ تھا کہ ہزار جھنجوڑنے کے بعد بھی عالم نہیں بدلا۔ ایک دیوانہ عشق کا کیف دیکھنے کے لئے سارا شہر منڈ آیا تھا۔ دیوانہ ایک بار پھر بے خودی کی حالت میں اٹھا اور صحرا کی طرف رُخ کیا قدم اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ پیچھے سے بیوی نے دامن تھام لیا اور آبدیدہ ہو کر کہنے لگی۔ ہماری آرزوئوں کا خون کرکے جانا ہی چاہتے ہو تو اکیلے مت جائو۔اپنے اس بچے کو بھی ہمراہ لے جائو۔ اس آواز پر حضرت احمد بن یزید کے قدم رک گئے۔ انہوں نے اپن ننھے منھے بچے کو جسم سے قیمتی لباس اتار کر اپنا پھٹا ہوا کمبل اس کے جسم پر لپیٹ دیا اس کے ایک ہاتھ میں زنبیل دی اور دوسرے ہاتھ کو پکڑ کر جونہی اپنے ہمراہ لے کر اسے چلے تو بیوی اس منظر کی تاب نہ لاسکی۔ سارا مجمع اس رقت انگیز منظر کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔ (جاری ہے باقی اگلی قسط میں)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here