ممدانی کا رینٹ اسٹیبیلائزڈ اپارٹمنٹ جو دوسری جنگ عظیم سے قبل کوئینز میں تعمیر کیا گیا تھا اُن کی سیاسی بصیرت کا آئینہ دار ہے ، کیونکہ موصوف نے ہاؤسنگ جسٹس کو اپنا کیریئر بنایا ہوا ہے،قطع نظر اِس حقیقت کے ممدانی کا رہائشی مسئلہ اُن کے مخالفین کیلئے روز اول سے ایک موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ موصوف کی مالی حالت رینٹ اسٹیبیلائزڈ یپارٹمنٹ حاصل کرنے کی مطلوبہ شرائط سے زائد تجاوز کر گئی ہے. تاہم امروز فردا میں ظہران ممدانی اپنی گھریلو صورتحال میں نمایاں تبدیلی لائیں گے اور اﷲبھلا کرے میئر کے انتخاب کا جس نے اُنہیں یہ دِن دکھایا ہے، میئر کے قلعہ گریسی مینشن میں منتقل ہونے کیلئے اُنہیں اور اُن کی اہلیہ راما دواجی کو ایسٹ سائڈ دریا کو عبور کرنا پڑیگا اور پھر منہاٹن کے ایسٹ سائڈ ہارلم جانے والی شاہراہ پر گامزن ہوکر گریسی مینشن میں داخل ہونا پڑیگا،گریسی مینشن 1799 ء میں ایک اِسکاٹش مرچنٹ آرچی بالڈنے اپنے موسم گرما کیلئے تعمیر کروایا تھا، میئر کے سرکاری رہائش گاہ میں تبدیل ہونے سے قبل اِس نے کئی ساکنوں کو اپنی چھاتی میں پناہ دی ہے، اور یہ منہاٹن کا واحد مکان ہے جو لکڑی کا بنا ہوا ہے ، اور جس کی وجہ اِسے نیویارک کا تاریخی ہاؤس ہونے کا اعزاز حاصل ہے،1986ء میں مالک مینشن کی پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ کر نیویارک سٹی نے اِسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اور اِسے پارک کیلئے ریسٹ روم کی سہولت سے آراستہ کرکے نیویارکرز کے دِل کو موہ لئے تھے اور یہ سہولت تقریبا” پندرہ سال تک جاری رہی تھی تاہم بعد ازاں اِس میں میوزیم آف دی سٹی آف نیویارک قائم کر دیا گیالیکن 1942 ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فیو ریلو لاگارڈیا نے گریسی مینشن کو اپنا مستقلا”رہائش گاہ بنا لیا۔ظہران ممدانی کیلئے منہاٹن نیویارک کا علاقہ کوئی اجنبی نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے سبسیڈائزڈ اپارٹمنٹ میں ایک مختصر عرصے کیلئے رہ چکے ہیں، جبکہ ممدانی کی والدہ کے پاس دوملین ڈالر کا ایک فلیٹ چلسی میں بھی تھا۔ممدانی اپنے والدین کے لاڈلے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اُن کے والدین نے اُنہیں ضرورت سے زیادہ مراعات فراہم کئے جن میں روزانہ کی سیاسی بحث اور بین الاقوامی واقعات پر پر مغز تبصرے شامل ہوتے تھے لیکن غزہ کی جنگ کے دوران اُن کے والد کے ٹھوس سیاسی نظرئیے اور استعمار پسندی کے بارے میں اُن کے خیالات نے اُن کی فیملی کو دائیں بازو کے افراد کی تنقید کا نشانہ بنایا تھا،بقول اُن کے والد کے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں نوآبادیاتی نظام پر عمل پیرا ہے اور وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے اُن کی سرزمین پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ممدانی کے والد79 سالہ محمود ممدانی جو کولمبیا یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور اور اینتھوپرولوجی کے ایک مشہور پروفیسر ہیں ،مزید کہتے ہیں کہ اُن لوگوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ اُن کا بیٹا نیویارک سٹی کا میئر بنے،67 سالہ میرا نیر جنہوں نے باکس آفس پر ہِٹ کرنے والی فلمیں نمسکے ، مون سون ویڈنگ، سلام بمبئی ، میسی سپی اور دوسری کامیاب فلموں کی ڈائریکشن کی ہے، گزشتہ سال کے دوران اُنہوں نے اپنے بیٹے ممدانی کے انتخابی مہم میں بھی زور شور سے حصہ لیا تھا اور اُن کیلئے اور اُن کے سٹاف کیلئے بریانی اور چکن کڑاہی پکایا کرتی تھیں،مسز نیر مسٹر محمود سے 1980 ء میں یوگنڈا میں ملیں، وہ میکیریر یونیورسٹی کمپالا جو یوگنڈا کا دارلخلافہ ہے وہاں پروفیسر ہوا کرتے تھے، وہیں ظہران ممدانی کی پیدائش عمل میں آئی، اُس دوران مسز نیر اپنی ایک مزاحیہ فلم ”میسی سپی مسالہ ” کے بارے میں ریسرچ کر رہی تھیں، مذکورہ فلم سے قبل اُنہوں نے ایک انتہائی کامیاب فلم ” سلام بمبئی ” بنایا تھا جو بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم اکیڈمی ایوارڈ کیلئے 1989ء میں نامزد ہوئی تھی، باوجودکہ فلمی دنیا میں مسزنیر کی کامیابی کے جو ہمیشہ اپنی فلموں میں بھارتی اداکاروں کو ترجیح دیا کرتی تھیں کہا کہ جب وہ فلم مسیسیپی مسالہ بنارہیں تھیں تو اُنہیں ایک سرمایہ کار سے رقم حاصل کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی تھی کیونکہ فلمی سرمایہ کا اِس وجہ کر بھونک رہا تھا کہ کیا اُنہیں فلمی دنیا میں کوئی بھی گورا نہ مل سکا جنہیں وہ اپنی فلم میں شامل کرسکیں، غور و خوض کے بعد مسز نیر نے سات ویٹرز کا کردار جو فلم میں شامل تھا اُن سبھوں کو گوروں سے بھر دیا ۔مسٹر ممدانی کے والد کیپ ٹاؤن کے ایک پروفیسر کی بات کو یاد کرتے ہیں جو اُنہوں نے ظہران ممدانی کے بارے میں کہی تھی، اُنہوں نے کہا تھا کہ ایک مرتبہ وہ کلاس میں ہر لڑکے سے اُس کے رنگ کے بارے میں دریافت کر رہے تھے،تقریبا”تمام لڑکوں نے یہ بتایا کہ وہ گورے ہیں، جب ٹیچر نے ممدانی سے اُن کا رنگ پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُنکا رنگ ”مسٹرڈ” ہے،مسٹر ممدانی اختتام نوآبادیاتی نظام کے بعد کولمبیا یونیورسٹی کے ایک انتہائی معتبر اور با صلاحیت پروفیسر ہیں، اُن کا اسکالرشپ افریقہ میں نوآبادیاتی نظام کا مرہون منت ہے، جیسا کہ افریقہ میں انسانی مظالم کے کچھ واقعات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور باقی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے،موجودہ دور میں نوآبادیات کا موضوع دانشوروں کیلئے ایک میدان جنگ بن گیا ہے۔











