”نیویارک کی سیاست اورممدانی کا بیانیہ”

0
47
شمیم سیّد
شمیم سیّد

نیویارک تقریبا ًساڑھے چوراسی لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے ساتھ امریکا کا سب سے بڑا اور کئی حوالوں سے سب سے نمایاں شہر ہے۔ نیویارک دنیا دراصل دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی مرکز ہے کیونکہ عالمی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سب سے اہم مرکز وال اسٹریٹ اور نیویارک اسٹاک ایکسچینج جیسے طاقتور ادارے یہاں پر موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نیویارک شہر کی معیشت کا مجموعی حجم لگ بھگ 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ بتایا جاتا ہے جو یقینی طور پر دنیا کے کئی ممالک کی معیشت سے بڑا ہے۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے عالمی سیاست میں اقوامِ متحدہ کا کلیدی کردار رہا ہے اور اس بین الاقوامی تنظیم کا ہیڈکوارٹر بھی نیویارک میں ہے۔ بلاشبہ ظہران ممدانی 1892 سے لیکر آج تک نیویارک کا سب سے کم عمر ترین میئر منتخب ہوا ہے۔ وہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے امریکی شہر کا پہلا مسلمان اور بیک وقت افریقن امریکن اور جنوبی ایشیا کے پس منظر سے تعلق رکھنے والا پہلا شخص ہے جو اس مسند توقیر پر فائز ہو چکا ہے۔ دراصل اس چونتیس سالہ نوجوان ،جو خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہتا ہے، نے صحیح معنوں میں امریکی سیاست میں انقلاب برپا کردیا ہے اور بڑے بڑے سیاسی جغادریوں کے تمام اندازے اور تجزیے غلط ثابت کر دئیے ہیں۔ اس نے اپنے ایک لاکھ سے زائد نوجوان رضا کاروں کی طاقت سے بڑے بڑے طاقتوروں کی نیندیں حرام کر ڈالی ۔ ایک مسلمان ہونے، مشرقی افریقہ کے یوگنڈا جیسے ملک میں پیدا ہونے اور واضح طور پر اسرائیل مخالف مؤقف رکھنے کے باوجود اس آہنی ارادوں کے مالک نوجوان نے نیویارک کا مئیر بن کر امریکا جیسی سپر پاور کی سیاست اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیویارک کا میئر بننا یقینی طور پر کئی چھوٹے ممالک کی وزارتِ عظمی سے کم نہیں جس کی کئی ایک ٹھوس وجوہات ہیں جنہیں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عالمی سفارتکاری کے اہم دفاتر اور بین الاقوامی سرکردہ میڈیا ہاوسز بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔ علاوہ ازیں نیویارک دنیا کے بہت اہم ثقافتی و نشریاتی مرکز کے طور پر بھی مشہور ہے۔ میڈیا ہائوسز بلومبرگ، نیویارک ٹائمز اور این بی سی کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ اس کے علاوہ کئی عالمی شہرت یافتہ برانڈز، فیشن ہائوسز، براڈوے تھیٹرز اور آرٹ کی نمایاں مراکز بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔ اب یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر کار وہ کونسے عوامل ہیں جن کے باعث ممدانی نے یہ تاریخی فتح حاصل کی ہے۔ میرے نزدیک اس فقید المثال کامیابی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک اس کا جاندار بیانیہ اور دوسرا اس بیانئے کی مؤثر ترسیل اور ترویج جس کے نتیجے میں وہ اپنے مخالف امیدواروں کو ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب ہوا۔ صرف ایک سال پہلے تک کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ظہران ممدانی جیسا سیاسی نووارد اینڈریو کومو جیسے سیاسی بتوں کو توڑ کر اپنے پاوں تلے روند ڈالے گا۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اسرائیلی طاقتور لابی اور ٹرمپ جیسے صدر کی کڑی تنقید اور اعلانیہ مخالفت کے علاوہ ایلون مسک سمیت درجنوں دیگر ارب پتی کاروباری شخصیات کی کھلم کھلا مخالفت اور شدید ترین تنقید کے باوجود یہ بظاہر کمزور ترین نوجوان امیدوار نیویارک کا میئر بننے میں کامیاب ہوا۔ اب اس کے پیغام کو دیکھیے کہ کس طرح اس نے نیویارک کے چند بنیادی مسائل کو اپنی کیمپین کا محور بنایا اور کس ہوشیاری اور دانشمندی سے اس نے نیویارک کی آسمان کو چھونے والی مہنگائی اور اس کے عام لوگوں کی زندگیوں پر مضمرات کو اجاگر کیا۔ اس کے نعرے نے لوئر مڈل کلاس اور عام آدمی کے دلوں میں گھر کر لیا۔ اس نے نیویارک کے مکانات اور دکانوں کے ہوشربا کرائیوں کو فریز کرنے کا اعلان کیا اور اس کے علاوہ شہریوں کے لیے مفت سفری سہولیات، کم قیمت گروسری سٹورز اور فری چائلڈ کیئر کو اپنے منشور اور تقاریر میں نمایاں جگہ دی۔ اس نے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فوری اور قابلِ عمل قوانین لانے کی ضرورت پر زور دیا اور عوام سے عہد کیا کہ وہ نیویارک کو محض امیروں اور سرمایہ داروں کا شہر نہیں بلکہ اس کے دروازے عام لوگوں کے لئے کھولنے کا خواہشمند ہے۔ اپنے اس جاندار بیانئے کو گھر گھر پہنچانے کے لئے ممدانی نے ایک غیر روایتی مگر بھر پور، مربوط اور منظم تشہیری مہم کے ساتھ ساتھ عوام سے براہ راست سماجی رابطے کا موثر انداز اپنایا جس کے لئے اس نے روایتی میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا اور کمیونٹی میٹنگز کو فوقیت دی۔ اس کی ٹیم نے فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا نہایت عمدہ استعمال کیا اور ممدانی کی وڈیوز اور تصاویر کو نیویارک کے ہر خاص و عام میں پھیلا دیا۔ اس کے علاوہ اس کی رابطہ مہم کے دوران چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز نے بھی اس کا پیغام نوجوانوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے خود کو کسی بھی قسم کے رنگ و نسل، مذہبی، گروہی اور لسانی امتیاز سے پاک رکھا۔ اپنے اس منفرد بیانئے کو اس نے نہایت مہارت، بے پناہ خود اعتمادی اور نپے تلے الفاظ میں بیان کیا اور ہمیشہ عاجزی اور دیانتداری سے اپنے دل کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اتارنے میں کامیاب ہوا۔ مئیر ممدانی کی کہانی فسانے سے نکل ایک ٹھوس حقیقت بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف کچھ نام نہاد ارسطو اس کی اس شاندار کامیابی کو مختلف فسانوں میں بدلنے پر جت گئے ہیں۔ اس نے صرف اور صرف نیویارک کے بنیادی مسائل کو اُجاگر کیا، طبقاتی نظام اور اس کی تقسیم کے تاریک پہلوئوں کو اچھالا جس نے عام لوگوں کیلئے نیویارک میں رہنا اجیرن بنا رکھا تھا۔ اس نے اپنے شاندار بیانئے کو اپنی اصل طاقت بنایا۔ اس نے صدر ٹرمپ کے اینٹی امیگریشن پلان کی شدید مخالفت کی اور اسرائیلی وزیر اعظم کی نیویارک آمد پر گرفتاری کا اعلان کیا۔ اسی طرح اس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس نے اپنے نظریات اور تصورات کو انتہائی سنجیدگی، مدلل انداز اور متانت سے لوگوں کے سامنے رکھا جسے عوام میں پزیرائی ملی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here