عالمی مالیاتی ادارے کے تازہ مطالبات نے ایک بار پھر پاکستان کی معاشی حکمرانی کے بنیادی نقائص کو اجاگر کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا تکنیکی وفد اسلام آباد میں جن نکات پر زور دے رہا ہے، وہ کوئی اجنبی یا اچانک نمودار ہونے والے مسائل نہیں بلکہ دہائیوں سے رگ و پے میں اترے ہوئے وہ نقائص ہیں جن کی اصلاح سے مسلسل گریز کیا جاتا رہا۔ بجٹ سازی میں ڈیٹا کے درست استعمال کا مطالبہ ہو یا ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ہدایت، ضمنی گرانٹس کے آڈٹ کی بات ہو یا ٹیکس چوری سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی ،یہ تمام نکات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی میں سقم محض سطحی نہیں بلکہ ڈھانچاتی نوعیت کے ہیں۔آئی ایم ایف کی جنوری میں شائع ہونے والی تکنیکی رپورٹ انہی نقائص کا مزید کھلا اظہار ہوگی، لیکن جو کچھ اب تک سامنے آیا ہے وہ بھی کم سنگین نہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن، ٹیکس چوری، حقیقی آمدن چھپانے اور پیچیدہ قوانین ایسا ماحول تشکیل دے چکے ہیں جہاں ٹیکس وصولی اپنی حقیقی صلاحیت کے نصف تک بھی نہیں پہنچتی۔ قومی خزانہ ہر سال کھربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرتا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے آسان راستہ ہمیشہ وہی اختیار کیا جاتا ہیکہ قیمتوں میں اضافہ، بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار اور عام شہری کی جیب پر مزید بوجھ۔ یہی نقطہ سب سے زیادہ تشویش ناک ہے، کیونکہ حکومتیں ہمیشہ کمزور طبقات کو آسان شکار سمجھتی ہیں جبکہ مراعات یافتہ طبقات اور طاقتور گروہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہ کر اسی نظام سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کا مالیاتی نظام شفاف اعداد و شمار کے بغیر کام کرتا ہے۔ بجٹ سازی بنیادی طور پر گیس، بجلی، محصولات اور حکومتی آمدن کے تخمینوں پر کھڑی ہوتی ہے لیکن ان تخمینوں میں سے زیادہ تر یا تو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے یا پھر مختلف اداروں کی جانب سے دی گئی رپورٹس ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں۔ ایک ایسا بجٹ جو غلط ڈیٹا پر تیار ہو، کبھی بھی درست معاشی سمت متعین نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مالی سال کے اختتام پر محصولات کے اہداف پورے نہ ہونے کی کہانی نئے الفاظ میں دہرائی جاتی ہے اور پھر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔دوسری طرف ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات بھی گزشتہ بیس برس سے ہوتی چلی آ رہی ہے، مگر عملی قدم ہمیشہ محدود اور نیم دلانہ رہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے والے تاجروں، رئیل اسٹیٹ سیکٹر، زمیندار اشرافیہ اور غیر دستاویزی معیشت کے کئی بڑے کھلاڑیوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہمیشہ سے ایک مشکل امتحان رہا ہے۔ مشکل اس لیے نہیں کہ حکومت کے پاس صلاحیت نہیں بلکہ اس لیے کہ یہ طبقات سیاسی طور پر طاقتور، سماجی طور پر جڑے ہوئے اور ریاستی نظم و نسق پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ان طبقات کو ناراض کرنے سے بچنے کے لیے وہ اقدامات کبھی نہیں کیے گئے جو ٹیکس وصولی کے نظام کو اصل معنوں میں مضبوط کر سکتے تھے۔ پاکستان میں ہر مالی سال کے دوران مختلف وزارتوں اور اداروں کو اربوں روپے کی ضمنی گرانٹس جاری کی جاتی ہیں جن کا نہ شفاف حساب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے استعمال کا کوئی موثر احتساب۔ آئی ایم ایف نے درست نشاندہی کی ہے کہ بغیر آڈٹ اور بغیر جواز کے جاری ہونے والی گرانٹس مالیاتی نظم و ضبط کو توڑ دیتی ہیں۔ ان گرانٹس کے ذریعے حکومتیں اپنے سیاسی یا انتظامی فوائد سمیٹتی ہیں جبکہ قومی خزانہ غیر ضروری خرچوں سے مزید کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یہ تمام نکات مل کر ایک بڑے، بنیادی اور ناگزیر سوال کو جنم دیتے ہیںکہ کیا پاکستان اپنی معاشی سمت خود متعین کرے گا یا ہر بار عالمی اداروں کی شرائط پر انحصار کرتا رہے گا؟ اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ اصلاحات عام آدمی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر نہ کی جائیں۔ بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ ٹیکس بیس بڑھانے سے پاکستان اپنے مالی خسارے کو کم کر سکتا ہے، مگر ٹیکس بیس بڑھانا کس پر؟ اگر حکومت غریب شہری، تنخواہ دار طبقے اور پہلے سے دباو میں موجود صارفین پر نئے بوجھ ڈالنے کی سوچتی ہے تو یہ اصلاحات ہرگز اصلاحات نہیں بلکہ زیادتی ہوں گی۔ پاکستان وہ واحد ملک نہیں جہاں غیر دستاویزی معیشت کا تناسب زیادہ ہو، لیکن ہم شاید واحد ملک ہیں جہاں اسے سیاسی تحفظ بھی حاصل ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹیں دراصل آئینہ دکھانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور اس کی شرائط ہمیشہ نرم نہیں ہوتیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو حقائق وہ سامنے لاتا ہے وہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا عکس ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کب تک ہم انہی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے جن کے باعث معیشت ہر چند سال بعد بحران میں چلی جاتی ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا مالیاتی نظام درکار ہے جو شفاف ہو، جس میں آڈٹ ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہو، اور جس میں کسی کو ٹیکس نہ دینے کی اجازت نہ ہو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا صنعت کار کیوں نہ ہو یا کتنا ہی بااثر زمیندار۔اگر حکومت اس موقع کو سنجیدگی سے لے اور اصلاحات کا رخ طاقتور طبقات کی طرف موڑ دے تو پاکستان ایک پائیدار مالیاتی ڈھانچے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان اب مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اصلاحات کرنا ہوں گی اور وہ بھی درست جگہ پر، درست طریقے سے اور درست نیت کے ساتھ۔
٭٭٭









