سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ امریکہ مشرق وسطیٰ اور عالمی طاقتوں کیلئے سرپرائز قرار۔ ‘واشنگٹن میں ولی عہد محمد بن سلمان کا استقبال امریکی معیار کے لحاظ سے بھی غیر معمولی تھا۔ مکمل ریاستی اعزازات، 21توپوں کی سلامی، گھڑ سوار دستے اور فضا میں لڑاکا طیاروں کی پرواز نہ صرف احترام کی علامت تھی بلکہ مملکت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کا اعتراف بھی تھا۔ اسی شام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں سیاہ ٹائی والے ضیافت کا اہتمام کیا، مہمانوں کی فہرست میں کرسٹیانو رونالڈو اور ایلون مسک جیسی عالمی شخصیات شامل تھیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ناقدین کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سعودی عرب پہلے ہی پاکستان کے ساتھ ہونے والے سکیورٹی معاہدے کے تحت ”جوہری چھتری” حاصل کر چکا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے تند و تیز سیاستدانوں نے امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے پہ آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ تنقید کا سلسلہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے گزشتہ ہفتے دورہ واشنگٹن سے شروع ہے جس کے دوران ٹرمپ نے سعودی عرب کو اپنا نان نیٹو اتحادی بنا لیا۔ ظاہر ہے نیٹو کے یورپی ممبران اور ترکی اس سب سے خوش نہیں لیکن ”ابتدائی سول جوہری تعاون کے معاہدہ” سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں نے اس معاہدے پر سخت اعتراضات اٹھائے ہیں کیونکہ جوبائیڈن اور براک حسین اوباما سمیت مسلسل آنے والے ڈیموکریٹ صدور نے اپنی اپنی مدت میں سعودی عرب کے ساتھ اس قسم کے کسی بھی جوہری معاہدے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم وہ سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ اس قسم کے معاہدات کے مخالف نہیں رہے۔بادی النظر میں، یہ معاہدہ مجھے ریاض کے مقابلے میں واشنگٹن کی جیت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔جتنی جلدی امریکی سیاست دان دوسری جنگِ عظیم کی ذہنیت سے نکلیں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پہ ایٹم بم گرایا۔ اگرچہ کئی محققین نے اس موضوع پہ لکھا لیکن ہینری کسنجر نے اپنی شہرہ آفاق تحاریر میں بیان کیا ہے کہ اس وقت امریکہ کے علاوہ کسی کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی اور جاپانی حکومت یہ کہ رہی تھی کہ امریکہ اپنی فوجیں زمین پہ اُتارنے سے ڈرتا تھا اسی لئے اس نے جاپان پہ یہ بم گرایا جو کہ ایک بزدلانہ قدم ہے۔ جاپانی حکومت نے اپنی نفسیاتی برتری بحال رکھنے کیلئے شروع میں یہ بھی کہا کہ اس بم سے کوئی خاص جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔اس وقت کے طاقتور روسی بلاک نے اس بم کو اخلاقیات اور انسانی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس وقت تک اس کی مخالفت جاری رکھی جب تک خود یہ صلاحیت حاصل نہیں کی۔ اس کے بعد سے ”ڈیٹرنس تھیوری” کے نام پہ جو نیوکلیئر آرم ریس شروع ہوئی اسے آج تک کوئی روک نہیں پایا۔ آرون دھتی رائے نے اپنی کتاب ”دی الجبرا آف انفینٹ جسٹس” میں واضح کیا ہے کہ دیٹرنس تھیوری دراصل نیوکلیئر پرولیفیکیشن کی بنیاد ہے۔ ایک میڈیا ریسرچر ہونے کے ناطے میرے لیے یہ تکلیف دہ بات ہے کہ مغربی میڈیا اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر اپنی سیاسی سوچ کو خبروں میں شامل کردیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے بڑے میڈیا اداروں نے ایم بی ایس کے دورہ واشنگٹن کے بارے میں تعصب آمیز شہ سرخیاں لگائیں اور یہی کچھ انہوں نے اس وقت بھی کیا جب پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا، جس میں ”جوہری چھتری” کے سوال کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ پاکستان کے معاملے میں رائٹرز نے رپورٹ کیا:”یہ دفاعی بندوبست ایران اور اسرائیل دونوں کے خلاف ایک ”ڈیٹرنس تھیوری” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جس کی بدولت ریاض کے پیسے کو جوہری تحفظ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔” تاہم رائٹرز اور دیگر گلوبل میڈیا کے اداروں نے سعودیہ امریکہ معاہدے کی رپورٹنگ میں اسرائیل یا پیسے کو بالکل مختلف تناظر میں بیان کیا۔ رائٹرز کی خبر کا یہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ وہ سعودی عرب کو ایک پیسے کی مشین کے طور پہ پیش کرتے ہیں جسے دیگر ممالک لوٹ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے پیش رو جوبائیڈن نے ایسے کسی بھی معاہدے کی سخت مخالفت کی تھی اور یہ شرط عائد کی تھی کہ سعودی عرب پر کڑی نگرانی کی جائے کہ وہ ہتھیاروں کے قابل یورینیم کی طرف نہ بڑھے۔ جب بائیڈن امریکہ میں جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کی خاطر سعودی عرب کی کڑی نگرانی کے حق میں لیکچر دے رہے تھے اور یمن کے حوثیوں سے پابندیاں ہٹا رہے تھے، محمد بن سلمان نے چینی صدر شی جن پنگ کو ریاض بلایا اور انہیں21توپوں کی سلامی دی۔ صدر ٹرمپ کئی بار یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان نے کئی فرانسیسی لڑاکا طیارے مار گرائے تھے، لیکن اب بروز منگل یو ایس۔چائنا اکنامک اینڈ سکیورٹی ریویو کمیشن نے رپورٹ دی کہ ”چین نے فرانسیسی رافیل طیاروں کی فروخت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک غلط معلوماتی مہم چلائی، جب بھارت نے مئی میں پہلی بار ان طیاروں کا استعمال پاکستان کے لیے تعینات چینی ہتھیاروں کے خلاف کیا۔” یہ رپورٹ سعودی ولی عہد کے دورہ امریکہ کے وقت شائع کی گئی جس کا بظاہر مقصد ولی عہد پہ امریکہ کے جنگی سازو سامان کی دھاک بٹھانا اور ان سے مہنگی ڈیلز کرنا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ بھی جانتے ہیں کہ یہ جوہری معاہدہ ان کی صدارت کے لیے سعودی عرب کا ایک طرح کا بیل آوٹ پیکج ہے۔ اسی لیے وائٹ ہاوس نے اپنے سرکاری بیان میں کہا:”آج سعودی عرب کیساتھ ہونے والے معاہدوں کے ذریعے صدر ٹرمپ امریکہ کو توانائی اور جدید ٹیکنالوجی میں قائد کی حیثیت دے رہے ہیں اور یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ ہماری سپلائی چینز مضبوط رہیں۔۔۔ اور یہ (سب) تعاون مضبوط عدم پھیلائو کے اصولوں کے مطابق ہوگا۔” مصنوعی ذہانت سے لے کر توانائی تک بڑے تجارتی معاہدے ہوئے۔چین دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور پھر بھی خود کو ترقی یافتہ ملک نہیں کہتا۔چین کے پاکستان کیساتھ جوہری توانائی اور دفاعی معاہدوں نے ہمیں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ وہ جوہری توانائی کی پیداوار یا دفاعی ساز و سامان جیسے جے 10لڑاکا طیارے کے استعمال پر غیر ضروری پابندیاں نہیں لگاتے اور نہ ہی کڑی نگرانی کی شرائط لگاتے ہیں۔
٭٭٭














