پاکستان میں نئے صوبوں کی اختراع !!!

0
59
رمضان رانا
رمضان رانا

متحدہ ہندوستان کے صوبوں اور ریاستوں پر نظر دوڑائیں تو ان میں بعض صوبے اور ریاستیں زبان ،لسان، نسل، کلچر، تہذیب و تمدان پرمعرض وجود میں لائی گئی ہیں جن کے نام صدیوں سے چلے آرہے ہیں ،اس لئے آج بھی بھارت میں بنگال، پنجاب، راجھستان وغیرہ نام پائے جارہے ہیں یہاں کے باشندوں کا لسان، زبان کلچر آپس میں ملتا جلتا ہے حالانکہ بھارتی پنجاب کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا گیا ہے کہ اب پنجاب میں اکثریت آبادی سکھوں کی پائی جاتی ہے باقی دو صوبوں میں رانگڑی اور پہاڑی پنجابی زبان بولی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں صدیوں سے آباد صوبہ پنجاب سندھ، بلوچستان، اور پختونخواہ کے باشندے آباد ہیں جو ہندوستان میں سلطنت، بادشاہت، راجوں، مہاراجوں سے لے کر آج تک اپنے صوبوں کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں جن کی زبانیں مختلف بولیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں مگر جو دنیائی قدیم زبان سنکرت کی بیٹیاں ہیں کہ جن کو آج پنجابی، سرائیکی، کشمیری پوٹھوہاری، ہندکوہ زبان کہا جاتا ہے۔ جو پنجابی زبان کی بگڑی ہوئی شکل ہے لہذا صوبوں کو زبان، لسان اور کلچر کے نام پر تقسیم کرنا زمانہ قدیم کے باشندوں کی ایک دوسرے سے الگ کرنے کے مترادف ہوگا۔ کہ صدیوں کے صوبوں کے باشندوں کو دوسرا نام دے دیا جائے جس طرح بھارت میں پوپی، سمالچی مہاسٹرا کا نام دیکر اور پہاڑی زبان لوگوں کی شناخت ختم کردی گئی ہے تاہم پاکستان میں آجکل صوبوں کی ازسر نوتشکیل کا چرچا جاری ہے کہ ملک میں بار صوبوں کا وجود لایا جائے جس میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا موجودہ صوبوں کے نام بدل کر نئے صوبوں کے نام رکھے جائیں گے یا پھر صوبوں کے نام وہی رہیں گے مگر صوبوں کے اندر انتظامی یونٹوں میں اضافہ کرکے عوام کے لئے سہولتیں پیدا کی جائیں گی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ صوبوں کی آبادی کی وجہ سے نام بدل کر صدیوں پرانے ناموں کی نس بدلا جاسکتا ہے اگر پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ ہے تو بھارتی صوبے پوپی کی آباد 241ملین پائی جاتی ہے۔ جو پاکستان کی آبادی سے زیادہ ہے یہاں تک انتظامی یونٹوں میں تقسیم کرکے عوام کو ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید کیا جاسکتا ہے تو سب سے پہلے پاکستان میں بلدیاتی نظام بحال کرنا ہوگا۔ جو بنیادی جمہوریت کا نظام ہے جس میں چند ہزار لوگوں کا ایک کونسلر ہوتا ہے جو اپنے علاقے کے تمام مسائل سے آگاہ ہوتا ہے جن تک عوام کی آسان رسائی ہوتی ہے جس کو پارلیمنٹرین نے ناکام بنا رکھا ہے تاکہ عوامی بجٹ کو ہڑپ کیا جائے حالانکہ پارلیمنٹرین کا کام قانون سازی ہوتی ہے جن کا عوام کی گلی کوچوں سڑکوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے جو مرکز اور صوبے سے بجٹ کو دلوا سکتے ہیں مگر خرچ نہیں کرسکتے ہیں۔ بہرکیف عوام کو صوبوں کی تقسیم کی بجائے صوبے کے شہروں، محلوں اور تحصیلوں کو بااختیار کیا جائے جن کی اپنی انتظامیہ ہو جس میں اپنا پولیس کا محکمہ ہو۔ چنانچہ صوبوں کے نام بدلنے کی بجائے صوبوں کو مشرق مغرب، شمال اور جنوب میں بدلا جاسکتا ہے کہ صوبہ پنجاب کو سنٹرل جنوب اور شمال سندھ کو مشرق اور مغرب پختونخواہ کی شمالی اور جنوبی پختونستان، بلوچستان کو پشتون بلوچستان اور بلوچستان میں بدلا جاسکتا ہے۔ تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دستیاب ہوں جن کے دارالخلافے، لاہور، ملتان، راولپنڈی، کراچی اور سکھر پشاور اور دوسرا قریبی دستیاب شہر ہوں جبکہ بلوچستان کا کوئٹہ اور تربت ہوسکتا ہے۔ جس سے انتظامی امور کے حل کے ساتھ ساتھ صدیوں پرانے صوبوں کے نام اور نشانات بحال رہیں گے جو اس خطے کا ورثہ ہے بہرحال پاکستان صوبوں کو بلدیات اور انتظامی یونٹوں میں بدل کر عوام کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہیں تاکہ صوبوں کی شناخت اور شناخت قائم رہے جوپاکستان کے عوام کا ورثہ ہے جس کو ہٹانا یا مٹانا نہایت قومی جرم ہوگا جو ناقابل قبول ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here