سیاست میں اخلاق نہیں ہوتے، اور بعض لوگوں کے نزدیک برے اخلاق ہی سیاست کو آگے لے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ مستقل دوست ہوتے ہیں نہ مستقل دشمن، اور آخرکار ہر کوئی اپنے مفادات کے پیچھے چلتا ہے۔ملکی سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ اقتدار کا نشہ ایسی بلا ہیکہ اپنے علاوہ سبھی غلط نظر آتا ہے۔ ہو ۔ جیسے طالبان ہر کمزوری کو پاکستان پر ڈال دیتے ہیںمولانا حکمت یار کے بیٹے کا کھنا ہے کہ ! طالبان دوسروں کو”مفسد” کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی گزشتہ تیس برس سے انہی طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر افغانوں کے خلاف لڑتے رہے، اور انہی پاکستانی طالبان کے ہاتھوں افغان مارے گئے۔ طالبان اپنے سوا سب کو خانہ جنگیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر جنگ کو طالبان اور ”دنیا کی دوسری مخلوقات”یا گویا خلائی مخلوقات کے خلاف جنگ کہتے ہیںافغانوں کے خلاف جنگ نہیں۔ اسی لیے وہ اپنی لڑائی کو خانہ جنگی نہیں کہتے خود کو پاک اور معصوم ظاہر کرسکیں۔ اصل فرق یہ تھاکہ مولوی حقانی، مولوی خالص اور مولوی نبی نے جنگ کے دوران حکمتیار کا ساتھ نہیں دیا بلکہ استاد ربانی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ ان کا کچھ بہتر تعامل تھا۔ لیکن بعد میں یہی لوگ ملا عمر کی قیادت میںطالبان کی تشکیل سے لے کر آج تک تمام جماعتوں سے لڑتے رہے، اور ان کے ساتھ ساتھ ہزاروں پاکستانی بھی افغانوں کے خلاف برسرِپیکار رہے، وہی پاکستانی جو آج ٹی ٹی پی کھلاتے ہیں۔ آج طالبان پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیںاسی ملک کے خلاف جس نے طالبان کو پہلے دن سے اب تک سہارا دیا۔ جب کہ وہ دوسری جماعتیں جنہوں نے دہائیوں تک پاکستان کی مخالفت کی تھی، آج اسی کے تعاون کے طلبگار ہیں! طالبان حزبِ اسلامی پر یہ الزام لگاتے کہ اس نے تین سال تک کمیونسٹ حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی، اور اسے خانہ جنگی قرار دیتے ہیں۔ مگر خود انہوں نے تیس برس تک اسی لڑائی میں حصہ لیا اور پھر بھی خود کو بے گناہ سمجھتے ہیں! آج، ماضی سے سیکھنے کے بجائے، فساد کی طرف بڑھ گئے ہیں، تعلیم، خواتین اور مردوں کے اسلامی حقوق سے دشمنی رکھتے ہیں، اور افسوس یہ ہے کہ ایسی گالی گلوچ کا راستہ اختیار کیا ہے جس نے طالبان اور مدارس دونوں کا نام بدنام کیا۔ طالبان نہ سیاست میں اخلاق پہچانتے ہیں، نہ مستقل دوست یا دشمن رکھتے ہیں، اور آخر میں صرف اپنی جماعت کے مفادات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قوم اور اس کا مستقبل ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ صرف اپنے قریبی لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں اور عوام سے مشورے کو کوئی مقام نہیں دیتے، حالانکہ اسلام ایسا نہیں کھتا۔ جمہوریت کی غلطی یہ تھی کہ اس نے حزبِ اسلامی اور طالبان دونوں کو نظام کا حصہ نہیں بنایا اور سب کچھ اپنے کنٹرول میں رکھا۔ طالبان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر جمہوری نظام ناکام ہوا تو یہ دوسرا نظام بھی ناکامی اور شکست پر ختم ہوگا۔ وہ اس وقت اپنی عسل کے مہینے کے آخری دنوں میں ہیں۔ طالبان، جو ایک جنگی گروہ کے طور پر بنے اور آج تک جنگ میں مصروف رہے، یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں کسی دوسرے ملک میں لوگوں کا قتل کتنے منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ طالبان کے لیے تو جنگ اور قتل عام معمول کی بات ہے، اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں بھی یہ عام بات ہونی چاہیے۔ حالانکہ ایک ہی شخص کے قتل نے پہلی عالمی جنگ چھیڑ دی تھی، اور جاپان کے ایک حملے نے امریکا کو ایٹمی بم استعمال کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ان کے اس طرزِ عمل کا اصل نقصان مظلوم افغان قوم ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ کاش پچھلی کئی دہائیوں کے دردناک تجربات سے سبق لیا جاتا۔ گالی گلوچ اور انحصار سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا۔ آج پی ٹی کا طرز سیاست بھی طالبانی ہے۔ سوشل میڈیا پرجھوٹ کی یلغار انکا خاصا ہے۔ جب انسان سچ سے خالی ہو جاتا ہے تو اسے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے، اور جب جھوٹ بھی ناکام ہو جائے تو انسان پھر ایسے میں تھرڈ کلاس نجومی بننے لگتا ہے۔جیسے بیرون ملک بیٹھتے یوتھئیے صحافی نجومی بن بیٹھے ہیں۔ یہ اصول ہمیشہ یاد رہے جو شخص دلیل سے نہیں جیت سکتا، وہ خوف ،جہوٹ اور سازش کو ہتھیار بنا لیتا ہے۔ ملکی سیاست جھوٹے سیاستدانوں۔ جھوٹے صحافیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ قومیں حقیقی صحافیوں سے سچ کی امید رکھتی ہیں،کل کے مزاحیہ بھانڈ آج کا نجومی بن کر قوم کے شعور کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یوتھئیے ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے۔ جنکے سوچنے،سمجھنے اور سننے کی صلاحیتیں مفلوج ہوچکی ہیں۔ یوتھن ہو یا یوتھیا ان کا انحصارجھوٹی خبریں اور سوشل میڈیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا اور بھارتی سوشل میڈیا بعنیہ ایک جیسیجھوٹی خبریں چلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیشمار اکانٹ ایسے ہیںجو بھارت سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سے آپریٹ ہوتے ہیںجنکا کام صبح و شامجھوٹ اور مایوسی پھیلانا ہے۔ سوشل میڈیا وائریرز ملک سے باہر بیٹھے چند صحافی ماہانہ ہزاروں ڈالرز بنارہے ہیں۔ یہ صحافی یوتھیوں کو بیووقوف بنا رہے ہیں۔ یہ اپنی روزی روٹی چلانے کے لئے پاکستان ، افواج پاکستان کے منفی خبریں بناتے ہیں۔ عمران خان کی جیل انکے لئے کمائی کا ذریعہ ہے۔ یہ لوگ دماغی طور پر ہلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوتھیوں کو نئی نئی خبریں بنا کر پیسہ بنا رہے ہیں۔ان چند لوگوں میں آفتاب اقبال، شہباز گل،عمران ریاض خان، معید پیرزادہ اور صابر شاکر بیرون ملک بیٹھ کر ہر روز ایک پوسٹ بناتے ہیں۔ یہ صحافی مال بھی بنارہے ہیںاور یوتھیوں کو بیووقوف بھی۔ یوتھئیے انجھوٹوں کی خبروں کو آسمانی صحیفہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو مسلمانوں کا مسیحا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ کچھ تو اسے موجودہ دور کا امام مہدی ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ انکے سوشل میڈیا پوسٹیں یوتھیوں کو ذہنی مریض بنارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس کلٹ نے شخصیت پرستی کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔ جو منفی پراپگنڈہ اور منفی خبریں انڈین اور افغانی ٹی وی چینلز پر ریاست پاکستان کے خلاف چلتی ہیں۔ وہ بیانہ یوتھی صحافیوں کا ہے۔ ہارون رشید، اوریا مقبول جان نے اپنی عزت شخصیت پرستی کی نظر کردی ہے۔ یوتھئیے،مودئیے، یہودئیے ایک سوچ ،ایک نظریہ کے مالک ہیں۔اقتدار کی خاطر ن لیگ، پیپلز پارٹی ،فضل الرحمن ،ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کسی بھی حد تک جاسکتے ہیںچاہئے وطن عزیز کو اس کا نقصان پہنچے۔ یہ صحافی عمران خان کے وہ اوصاف بیان کررہے ہیںجس کا شائد عمران کو بھی علم نہ ہو۔ وہ وقت دور نہیں جب یوتھئیوں کو احساس ہوگا کہ انہیں کیسے بیووقوف بنایا جاتا رہا۔ ملک میں صرف ایک ہی جماعت ہے جو مثبت کام کررہی ہے۔ نوجوانوں کو آئی ٹی جورسیز اور ووکیشنل ہنر سکھائے جارہے ہیںتاہ ملک میں کوئی نوجوان بغیر ہنر کے نہ رہے۔ تعلیمی قابلیت کے مطابق ان میں ہنر اُجاگر کیا جاسکے۔ خدمت خلق اور جماعت اسلامی نے گزشتہ چند سال میں تعلیم اور صحت میں قوم کی بہت خدمت کی ہے۔ جماعت اسلامی ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل چاہتی ہے جو اپنے پاں پر کھڑا ہوسکے۔ نوجوان جو ملک سے باہر نہ جانا پڑے پڑے ۔ انکے پاس ہنر اور سکیل ہو۔ جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ نوجوان نسل ہر ملک، معاشرے اور سوسائٹی کا اہم ستون ہوا کرتے ییں ۔ جماعت اسلامی نوجوانوں کے لئے انتہائی مثبت کام رہی ہے۔ تعلیم اور ہنر کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو نظریاتی اور محب وطن بننے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اس سے محبت ھمارے ایمان کا جز ہے۔ اسکے لئے سوچنا ھماری پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ کسی بھی کنارے کا یہ ایجنڈا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر اقتدار ان کے پاس نہیں تو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کر دیں۔ ملک کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع کر دیں۔ جماعت اسلامی نے پچاس سال بنگلہ دیش میں ظلم، جبر اور وحشت جا سامنا کیا ہے۔ ہزاروں لوگ شہید کئے گئے ہیںلیکن جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنے ملک اور اداروں کے خلاف بغاوت نہیں کی ۔ جس کا صلہ ہے کہ جماعت اسلامی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم بھاگ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان ایسا معاشرہ چاہتی ہے جہاں اختلاف رائے تو ہو۔ لیکن ریاست مخالف ایجنڈا نہ ہو۔ ریاست سے ٹکرانے کی سوچ نہ ہو۔ متشدد ذہنیت اور سوچ نہ ہو۔ ملکی اداروں کو بھی چاہئے کہ ملک میں صحت، تعلیم کے لئے ایسے منصوبے شروع کرے جس کیثمرات عام عوام تک پہنچیں ملک تب ہی ترقی کرتا ہے جہاں اداروں میں انصاف ہو۔ ایمانداری کا کلچر ہو۔ ملک میں سیاسی افراتفری ایک بار پھر عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا اسلام آباد اڈیالہ کے باہر پڑا ہے۔ عمران خان کی بہنوں کے انڈین ٹی وی پر انٹرویوز کو کیطرح ناپسندکیا۔ پیپلز پارٹی ماضی میں بھارتی ٹینکوں پر چڑھ کے آنے کی بات کرتی تھی۔ن لیگ اقتدار چھننے کے بعد ہر حد تک گزر جاتی ہے۔ مودی سے انکی یاری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماضی میں اے این پی بم دھماکوں میں ملوث رہی۔ ایم کیو ایم کا را سے تعلق سب پر عیاں ہے۔ انکے لوگ دہشتگردی میں ملوث رہے۔ ان تمام پارٹیوں کے ساتھ پاکستان مخالف بیگیج ہیں۔ گذشتہ چالیس سال سے وہی بدمعاشیہ ملک پر براجمان ہے۔ جس نے ملک لوٹ لوٹ کر دولت کے انبار لگا رکھے ہیں۔ انکے نزدیک قانون اور عدالت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہی چہرے، یہی بدمعاشیہ بار بار مختلف پارٹیوں کے زریعے مسلط کیا جاتے ہیں۔ ان درندوں سے جان چھڑانے کا واحد نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے۔ صرف جماعت اسلامی وہ ہی وہ جماعت ہے۔ جو ان قومی مجرموں کے پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت واپس نکال سکتی ہے۔ صرف جماعت اسلامی ہے جو سستا اور بروقت انصاف فراہم کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے جو کرپٹ عناصر کو قانون کے دائرے میں لاسکتی ہے۔ اس لئے وقت ضائع کئے بغیر قوم کو جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑاہونا چاہئے۔ کیونکہ قوم نے ان سب جھوٹے منافقوں ، چوروں ،اور قومی مجرموں کو کئی بارآزما لیا ۔ایک بار جماعت اسلامی کو بھی تو آزما کردیکھیں۔ جماعت اسلامی کا عوامی خدمت میں شاندار ریکارڈ ہے۔ نیشنل ایشوز ہوں یا انٹرنیشنل ایشوز ،جماعت اسلامی ہر اس ایشوز پر بات کرتی ہے۔ جماعت اسلامی غزہ پر ظلم ہو یا مسئلہ کشمیر جماعت اسلامی مسلم امہ کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ نشنل ایشوز پر مثلا پاکستان میں چینی، گندم کا بحران ہے۔ جس پر جماعت اسلامی کھل کر قوم کی ترجمانی کرتی ہے۔ آئی پی پی کی لوٹ مار میں تینوں بڑی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ جو بجلی کی ظالمانہ قیمتوں کے ذمہ دار ہیں۔بڑا ذمہ دار اور سرمایہ دار ٹیکس نہیں دیتا ۔جو انہی پارٹیوں کے عہدیدار ہیں۔ جماعت اسلامی مڈل کلاس اور غریب طبقہ کی ترجمان ہے۔ جماعت اسلامی قوم کو ظلم کے نظام سے نجات دلانا چاہتی ہے۔ عدل اور انصاف کا معاشرہ لانا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی توڑ پھوڑ کی سیاست نہ برتی ہے اور نہ کی نوجوانوں کو اکساتی ہے۔ جماعت اسلامی ایشوز پر سیاست کرتی ہے۔ مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ تعلیم،صحت مہنگائی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کام بھی کرتی ہے۔ جماعت اسلامی قومی کے لئے ایک بڑی نعمت ہے۔ جس کی لیڈرشپ مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ الخدمت فائونڈیشن نیشنل اور انٹرنیشنل مسطح پر جو کام کرتی ہے اسکا کوئی موازنہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امارت کی ذمہ داری مقامی، یا مرکزی امیر پر پڑتی ہے تو اس ذمہ داری پر اللہ سے گڑگڑاتے ہیں کہ اے اللہ ھماری اس ذمہ داری کو قبول فرمانا۔استقامات اور منصب سے وفا کی توفیق عطا فرمانا۔ یقینا! یہ جماعت اسلامی کی عظمت، اخلاص اور تربیت کا نتیجہ ہے ہ یہاں عہدہ ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک امانت اور بھاری ذمہ داری، سمجھا جاتا ہے۔ جب کسی کو قیادت سونپی جاتی ہے تو وہ آنسوں کے ساتھ اللہ کے حضور جھکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ منصب خدمت، قربانی اور جوابدہی کا ہے، نہ کہ طاقت، فخر یا دنیاوی فائدے کا۔ جب کہ اکثر سیاسی جماعتوں میں ذمہ داری، خوشی، جشن اور برتری کے احساس سے قبول کی جاتی ہے، جماعت اسلامی میں یہ دل کی جھکی ہوئی کیفیت، عاجزی اور اللہ کے” خوف”کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔یہی وہ ”فرق” ہے جو جماعت اسلامی کو باقیوں سے ”الگ اور ممتاز” بناتا ہے۔ اللہ تعال امیر جماعت اسلامی پاکستان اور امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو اخلاص، استقامت اور قبولیت عطا فرمائے۔(آمین )
٭٭٭
س











