فکر وفن نے محفل سجائی، نینا عادل مقدس گناہ !!!

0
11
کامل احمر

پچھلے دنوں 25 نومبر کو کاروان فکروفن شمالی امریکہ نے مشاعرہ اور ناول نویس کی ناول ”مقدس گناہ” کو خراج تحسین دینے کے لئے لونگ آئی لینڈ کے ایک ڈبے کی رمینٹر نیویارک اور قریبی ریاستوں سے آئے ادباء اور شعراء کے ساتھ محفل سجائی، ہم اس بارے میں آنکھوں پڑھا حال اور اس پر بھیک گرائونڈ میں چلنے والی آٹو ڈبنگ پر تنقید کر دیتے ہیں یہ ہمارا خیال ہے اور اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے فلسفی، علماء اور لکھاریوں پر کسی نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ بعد مرنے کے سب نے تعریف کی اور سراہا۔ معاشرے میں تبدیلی یا تعارف وقت کی ضرورت ہے اور جو چیز مکمل ہو اُس کو بدلنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ہمارے سینئر صحافی محسن ظہیر صاحب نے اس پروگرام کو وہاٹس اپ پر آٹو ڈبنگ کی شکل میں ڈالا یہ یقیناً ہمارے نوجوانوں اور اردو سے ناواقف لوگوں کے لئے تھا۔ انہوں نے ہماری مشکل تو حل کردی بتا کر کہ یہ دبائو اور وہ دبائو، لیکن جب دوبارہ ہم نے اس پروگرام پر لکھنے کو یہ دبایا وہ دبایا وہ آٹو ڈبنگ ہی رہا اور ہم تھک رہار کر بیٹھ گئے۔ اور ضروری سمجھا کہ لکھتے چلیں کہ ہمیں اردو کو بگاڑنے کا اختیار نہیں ہم اپنی کوتاہیوں یا نالائقیوں کو انٹرنیٹ کی مدد سے چھپاتے ہیں بچوں کو اردو بولنا اپنی تضحیک سمجھتے ہیں کہ ہم امریکہ میں ہیں ہم امریکہ میں کسی اور ملک کے لوگوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔ بڑی مثال اٹلی کے امریکن شہری میں جو گھروں میں پیزا شاپ براور دوستوں میں اطالوی زبان میں بولتے ہنسی مذاق کرتے اور گالیاں دیتے ہیں، دیکھئے فلم گاڈفادر ہم بتاتے چلیں کہ اردو آئی کہاں سے بھی نہیں یہ ہندوستان میں ہی کشیداکاری سے بنی۔ جب باہر اپنے لشکر کے ساتھ ہندوستان میں آیا اور دہلی جاتے جاتے اس کے لشکر میں، افغانی، پشتوں پنجابی سندھی، بلوچی شامل ہوتے گئے ان سب نے رابطے کے لئے ملی جلی زبان میں بات کرنا شروع کیا جسے لشکری زبان کہا گیا اور دہلی آتے آتے یہ زبان اردو بن گئی جس میں ہندی اور سنکرت کی آمیزش تھی۔ مثلاً ہندی اور سنسکرت کے الفاظ، مترا، آکاش، چائے، ستار جواہر، استری، شریمان، اردو میں شامل ہوگئے اور پورے ہندوستان میں یہ زبان بولی جانے لگی یہ دوسری بات کہ ہندوستانیوں نے ایسے ہندی کا نام دے دیا۔ اردو میں جو فلمیں بنتی تھیں اور ہیں کو بھی ہندی لکھنا شروع کردیا لیکن جب آپ امتیابھ بچن کے پروگرام ”کون بنے گا کروڑ پتی دیکھتے ہیں تو امیتابھ بچن شروع ٹھیٹ ہندی سے کرتا ہے لیکن مقابلے میں، سکھ، گجراتی ہندو، مارواڑی، بہار بنگال کے مقابلے میں آنے والے صاف اردو کی زبان بولتے ہیں ہندی کے چند الفاظ کے ساتھ لیکن پاکستان میں جو بڑے گھرانے کے بچے ہیں انگریزی بولنا ہی پسند کرتے ہیں اور یہاں بھی جن کے والدین گائوں اور چھوٹی جگہوں کے ہوں وہ بچوں سے انگریزی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ چین جائیں، جاپان گھومیں، اسپین پہنچیں جرمنی میں ہوں وہاں آفس اور بزنس کی جگہوں پر اپنی ہی زبان بولتے ہیں خاص کر فرانس سب سے آگے ہے اور ان سب ملکوں نے ہر سمت میں ترقی کی ہے ہم جس شدید احساس کمتری میں ہیں یہ انگریز کی دی ہوئی چیز نہیں یہ ہماری ناقص عقل کا نتیجہ ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ اردو نے ہمیں کیا کچھ دیا ہے ادب علم، شناخت، شاعری یہ سب اردو سے پہنچا ہے ہندوستان میں اب بھی بڑے بڑے مشاعروں کا رواج ہے اور شوق سے سنے جاتے ہیں، یہاں آکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ایک مشہد ہے جیسے شہد کی مکھی اپنے چھّتے کے اردگرد پھیلے ہوئے درختوں، پودوں پر طرح طرح کے آگے رنگ برنگے پھولوں کا عرق چوس کر چھتے میں ڈالتی ہے جو شہد کی شکل میں میٹھا بن کر نکلتا ہے بالکل جیسے کئی زبانوں کے ملاپ سے اردو شہد بن کر نکلی تھی۔ لہذا اس کو بگاڑنا یا دوسروں کے لئے آٹو ڈبنگ کرنا ایسا ہی کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا اور اردو کو لاچار بنا دینا۔ یہ کہنا درست ہوگا اُن کے لئے جو اردو کو اپنے پہلے مقام پر پہنچا رہے ہیں ایک کہاوت یہاں درست ہے ”پہونچی وہیں پہ خاک، جہاں کا ضمیر تھا”
ہر چند کہ اردو کو ختم کرنے میں سوشل میڈیا اور بگاڑنے میں میڈیا کا ہاتھ ہے۔ اس میڈیا نے جس کی حالیہ مشکل آٹو ڈبنگ اور A-I ہے نے سہل پسندوں کو اردو پڑھنے اور لکھنے سے دور کردیا ہے۔ نالائق طلباء A-I سے امتحان دیتے وقت فائدہ اٹھا رہے ہیں آئی فون کی مدد سے۔ اب آئیں نینا عادل کی ناول ”مقدس گناہ کی طرف جس کے لئے جمیل عثمان نے کافی اچھا لکھا ہے لیکن ناول کو پڑھے بغیر اس کے لئے پڑھنا عجیب سا ہے جمیل عثمان نے کوشش کی ہے۔
کہانی کہنے کا فن ہر کسی کے بس کا نہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
”ایک ناولسٹ ہے جو جانتا ہے اور ایک ناولسٹ جو صرف لکھتا ہے”
نینا عادل کا ناول پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ”SHE KNOW S” ناول کے شروع کا پیرا گراف کی بابت لکھتے ہیں آغاز ہی اتنا متاثر کن ہے کہ پڑھنے والا اس کی خوبصورتی میں محو ہو جاتا ہے ملاحظہ ہو۔
”کمان ابرو اور کالی کالی کٹورہ آنکھوں والی سروقامت مشرقی رقاصہ کا دیو مالائی حسن تمکنت اور معصومیت کا عجب پرلوز مرقع تھا” صدر کی گھنٹوں جیسے طلائی آویزے، گول مہین نتھ تنی ہوئی نازک گردن بائیں شانے سے جھوم کر آگے کو آئی ہوئی لابنی سیاہ چوٹی۔ سینے کے گنبد نما تابدار اٹھان سے ناف کی بھنور تک بل کھاتی ہوئی اس کا سڈول نقرئی بدن سیاہ تنگ بلائوز کی نچلی منقش پٹی سے لے کر پنڈلیوں تک عنابی ساڑھی کی تہہ بہ تہہ میریاں ناچنے والی کے انگ انگ کے ساتھ رقصاں تھیں۔ مصّور کے عشق ومستی میں ڈوبے سحرانگیز برش نے عجیب تطہیر آمیز شاہکار تخلیق کیا تھا۔ آگے لکھ کر ہم جگانا نہیں چاہتے ہم نینا عادل میں اس شاہکار کو تلاش کرنے لگے تھے، طاہر خان نے وہ کمی پوری کردی تھی کہ وہی وہانوی یاد آگیا تھا۔ نینا عادل نے ایک خوبصورت عورت کے حسن وجمال کا جوانی سے لبریز جو نقشہ کھینچا ہے بلاشبہ جمیل عثمان کے ”وہ جانتی ہیں”’ پہلی بار عورت کو عورت کا نقشہ کھنچننے پڑھا ہے اور ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ساتھ ہی اور شاعرہ اور ناولسٹ کے ملاپ کو بھی، وکیل انصاری صاحب کا شکریہ محفل سجانے کا!
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here