ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھارت کی وطن عزیز سے ازلی دشمنی اور افغانستان کے بطور بھارتی پراکسی پاکستان کیخلاف دہشتگردی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر افغان رجیم کو نکیل نہ ڈالی گئی تو حالات کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے، ہمارا یہ خدشہ یوں درست ثابت ہوا کہ پاکستان کیخلاف گزشتہ ہفتے کو پختونخواہ و بلوچستان میں دہشگردانہ واقعات کیساتھ تاجکستان میں ڈرون حملوں سے تین چینی باشندوں کو ہلاک کر دیا گیا، شنید ہے کہ یہ اسرائیلی ساختہ ڈرونز بھارت کے افغان رجیم کو فراہم کئے گئے تھے، تاہم اس سے بھی بڑھ کر دہشتگردی وائٹ ہائوس پر کی گئی جب افغانستان میں امریکی افواج کے دور کا ایجنٹ رحمان جو انخلاء کے وقت امریکہ آگیا تھا، ریاست واشنگٹن سے کیپیٹل پہنچا اور فائرنگ کر کے دو نیشنل گارڈز پر حملے کا مرتکب ہوا، اس نکتہ پر سوال اُٹھتا ہے کہ امریکہ کی جاسوسی کرنے والا یہ شخص کیپیٹل پر کیوں حملہ آور ہوا، ایجنسیوں نے گتھی یوں سلجھائی کہ امریکہ آنے والے بائیڈن دور کے افغان مہاجرین دہشتگرد گروہوں کیلئے متحرک ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانیوں سمیت 19 ممالک کے مہاجرین پر گرین کارڈ اور ویزہ کے ری ایگزامینیشن اور سختیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اہم یہ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں ایران، لیبیا، ترکمانستان، سوڈان یمن سمیت آدھے مسلم ممالک شامل ہیں۔ شکر یہ ہے کہ پاکستان اس فہرست میں شال نہیں، غالباً اس لئے کہ پاکستان اس وقت بوجوہ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کی آنکھ کا تارہ ہے۔
پاکستان اور موجودہ عالمی تناظر میں یقیناً اس وقت امریکہ، چین، سعودیہ، ترکی و دیگر ممالک کیلئے سفارتی و عسکری حوالوں سے کامیابی کا حامل ہے لیکن کیا اندرون خانہ خصوصاً سیاسی حوالوں سے خوش کُن اور موافق حالات ہیں، کیا حکومتی و عوامی صورتحال وطن عزیز کی سلامتی و خوشحالی کی نشاندہی کرتی ہے تو ہمارا تاثر نفی میں ہی بنتا ہے۔ ایک جانب بھارت و افغان رجیم اور ان کی پراکسیز کی دہشتگردانہ سرگرمیاں روز کا معمول بن چکی ہیں اور عسکری و سول افراد و اداروں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے تو دوسری طرف سیاسی و خود غرضانہ منافرت سے بے یقینی کی صورتحال سے ساری قوم پریشان ہے البتہ دشمنوں کو فائدہ اُٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے حالات پر ہی نظر ڈالیں تو یہ حقیقت صاف نظر آتی ہے کہ سارا کھڑاگ بغض عمرانیہ میں ہی ہے، خان سے 4نومبر سے ہماری اس تحریر کے لکھے جانے تک کوئی ملاقات نہ ہو سکی ہے نہ خان کے وکلاء سے نہ بہنوں سے اور نہ کے پی کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو عدالت عالیہ کے حکم اور اس کے آٹھ مرتبہ اڈیالہ اللہ وزٹ حتیٰ کہ 18 گھنٹے دھرنے کے باوجود موقع دیا گیا۔ یہی نہیں خان کے اڈیالہ میں عدالتی کیسز کی سماعتیں بھی تسلسل سے ملتوی کی جا رہی ہیں۔ شوکت یوسفزئی کے مطابق پی ٹی آئی کے کسی رہنماء کو خان سے ملاقات اور حقیقت حال سے آگاہی کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف پوری قوم شش و پنج اور فکر میں مبتلا ہے، بلکہ کپتان کے بیٹے قاسم نے بھی خدشات و تحفظات کا اظہار کیا ہے، یہ سب تو اپنی جگہ اس حوالے سے افغانستان کی ایک سوشل میڈیا خبر کو بنیاد بنا کر بھارت کے چھ میڈیا چینلز نے عمران خان کہاں ہے، کے ٹیگ پر نورین نیازی کو بٹھا کر پاکستان میں اندرونی انتشار و افتراق کا ابلاغ کیا کہ تمام شعبوں میں ذلیل و خوار ہو کر اس طرح پاکستان کو نقصان پہنچا سکے۔ ہمارا نقطۂ نظریہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر چلنے والی حکومت کو اتنی توفیق کیوں نہیں کہ وہ خان کی کسی بہن، وکیل یا سیاسی ساتھی سے چند منٹ ملاقات کروا کے اس مخمصے سے نجات پائے یا اسے ان کا خوف ہے جن کے بل بوتے پر حکومت کا انحصار ہے اور جن کیلئے خان اپنی عوامی مقبولیت کے سبب ایک خطرہ ہے۔ خیر خدا خدا کرکے2دسمبر کوآخر کار کپتان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان سے ملاقات کرا دی گئی، ڈاکٹر عظمیٰ کے مطابق خان قید تنہائی و ریاستی رویہ پر شدید ناراض ہیں بہرحال اس صورت پر کم ازکم عوام اور کپتان کے شیدائی مطمئن ہوئے ہیں۔
اس حقیقت میں تو اب کوئی شائبہ نہیں رہا کہ عمران اپنے عزم اور عوامی محبوبیت کی وجہ سے ہائبرڈ رجیم کیلئے خطرہ ہی بن چکا ہے۔ آئینی ترمیم، عدالتی نظام کو کمزور کرنے اور رجیم کو طویل کرنے کے غیر جمہوری و غیر آئینی ہتھکنڈوں یہاں تک کہ خبیر پختونخواہ میں گورنر راج کے سازشی ارادوں کے باوجود عمران قوم کے دلوں اور مخالفین کے ذہنوں میں جاگزیں ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ شہید بھٹو کی طرح عمران خان عوام کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔ موت کا ایک معین وقت ہے، اسے مدت میں وسعت دے کر یا اقتدار کو مدت بڑھا کر ٹالا نہیں جا سکتا ہے۔ہمارا استدلال یہی ہے کہ عوام کے محبوب رہنما سے ملاقاتوں کا موقع نہ دینے کے اقدام سے بھارت جیسے دشمنوں کو وطن عزیز کیخلاف زہر افشانی کا راستہ کیوں دیا جائے جو ریاست، حکومت بلکہ وطن عزیز کی سلامتی کے لئے بھی دشمنی کے سواء کچھ نہیں ہے۔ دشمنی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ورنہ نقصان و ندامت ہر فریق کو ناکامی ہی ملتی ہے۔
٭٭٭٭٭












