طوائف زادی !!!

0
12
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

طوائف زادی :نوٹ: نام نہاد شریف لوگ دور رہیں۔ ناول طوائف ذادی سے اقتباس محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ہر چند نہ میرا قلم اس قسم کی تحریر لکھتا ہے اور نہ مجھے ایسا ادب پسند ہے لیکن مشرق و مغرب کی معاشرہ میں رہ کر درمیان جو چیز مشترک نظر آء اور مقامی طور پر لوگوں کے اختلاف دیکھنے کو ملے علیحدگی و طلاق کی حد درجہ بڑھتی ہوء شرح تو احساس ہوا ان وجوہات پر لکھا جائے اور کھل کر لکھا جائے ایک قریبی بے تکلف دوست کا خیال ہے میاں بیوی کا اختلاف نناوے فیصد کمرے کے شروع ہوتا ہے یہ بات درست ہے اور اس میں ایک وجہ مابین تسکین کو نہ ہونا بھی ہے اب اس انداز واطوار کو مزید کھول کر بیان کرنے کی جسارت کررہا ہوں ناول کا نام آپ پڑھ چکے ہیں اور اسکے مطالعے کی بعد جو نتیجہ نکالا جائیگا وہ امید ہے آپکو پسند آئیگا اب آتے ہیں اس کہانی کی طرف جو مندرجہ زیل ہے یہ چند حصوں میں پیش کیا جائیگا ۔ ” چاندنی مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی مرد اپنی خوبصورت ، نیک اور شریف بیوی کو چھوڑ کر ایک طوائف کے پاس کیا لینے آتا ہے ؟” دیا نے چاندنی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا “سکون.” چاندنی نے بہت سکون سے جواب دیا “سکون؟ کمال ہے ، کیا اسے بیوی سکون نہیں دیتی؟” دیا حیران ہوئی “نہیں، بیوی جسمانی سکون نہیں دیتی. فطری تسکین نہیں دیتی ” چاندنی نے بہت اطمینان سے کہا “تو بیوی پھر کس لیے ہوتی ہے ؟ بیوی کیا دیتی ہے؟” دیا نے الجھن امیز نظروں سے چاندنی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا “بیوی سکون کے سوا سب کچھ دیتی ہے، اولاد،کھانا ، دھلا کپڑا ، عزت ، بستر سب کچھ دیتی ہے سکون دینا بیوی کے بس میں نہیں ہوتا۔” چاندنی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی “کیا مطلب؟ سکون دینا بیوی کے بس میں کیوں نہیں ہوتا؟” دیا الجھی “کیونکہ جو چیز خود بیوی کے پاس نہیں ہوتی وہ کیسے شوہر کو دے سکتی ہے؟” چاندنی نے مسکرا کے کہا “کیسی عجیب باتیں کررہی ہو تم چاندنی؟ کیا بنا جنسی عمل کے بچے ہوجاتے ہیں؟” دیا نے سوالیہ انداز سے اس کی طرف دیکھا “میں نے یہ کب کہا کہ جنسی عمل نہیں ہوتا؟ جنسی عمل ہوتا ہے بس یوں سمجھو اس جنسی عمل میں بیوی ربورٹ کی طرح ہوتی ہے ” چاندنی نے دیا کو سمجھانے کی کوشش کی دیکھو دیا ہر بیوی ایسا نہیں کرتی کچھ سمجھدار بھی ہوتی ہیں جو شوہر کی خوشی کا اہتمام کرتی ہیں وہی فائدے میں رہتی ہیں ان کے شوہر تمام عمر ان کے پلو سے بندھے رہتے ہیں مگر کچھ بیویاں جنسی عمل کو بیزاری سے ادا کرتی ہیں منافقت سے ” چاندنی نے مزید سمجھایا “منافقت سے؟” دیا کے خاک پلے نہ پڑا “ہاں منافقت سے، دیکھو دیا جنسی عمل ایک اٹل حقیقت ہے اس سے انکار ممکن نہیں ہے جیسے کھانا پینا سونا یہ سب ضرورتیں ہیں ویسے جنسی عمل ضرورت ہے مگر لوگ اسے بہت عام بات سمجھتے ہیں یہاں سے ہی بگاڑ شروع ہوتے ہیں، کچھ بیویاں جنسی عمل کو صرف مرد کی ضرورت سمجھتی ہیں اور وہ اسے شوہر پہ احسان سمجھ کر ادا کرتی ہیں، یہاں تک کہ اتنے اہم عمل سے مرد لطف نہیں لے سکتاوہ بیوی کے تاثرات سے یہی سمجھتا ہے کہ عورت پہ ظلم کر رہا ہے جیسے بندہ باسی اور سڑے ہوئے کھانے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا بالکل غیر رضامندانہ جنسی عمل سے سکون نہیں پاسکتا، بیوی کو یہی گمان رہتا ہے کہ وہ یہ حق اداکر تو رہی ہے مگر کیسے کر رہی ہے یہ نہیں جانتی، جب وہی مرد طوائف کے پاس آتا ہے تو طوائف ہنس کر مکمل ناز و انداز سے مکمل اہتمام سے مرد کو تسکین دیتی ہے اسے پتہ ہے کہ یہی اس کا ذریعہ معاش ہے ایمان داری سے ادا کرے گی تو کاروبار چلے گا اور پیٹ کا دوزخ بھرے گا جبکہ بیوی کو پتہ ہے کہ اسے گھر بچے عزت سب میسر ہے بیوی سمجھتی ہے بچے ہوگئے ہیں بات ختم جبکہ کچھ لوگ شادی کا مقصد ہی بچے ہونا سمجھتے ہیں عورت جنسی عمل کو ہر چیزسے آخر میں رکھتی ہے جبکہ مرد جنسی عمل کو ہر چیزسے پہلے رکھتا ہے اول اور آخر میں بہت فرق ہوتا ہے جو چیز مرد کے لیے اول ہے وہ عورت کے لیے آخر ہے جب بھی مرد یہ بات کرتا ہے بیوی کہتی ہے فضول باتیں مت کرو یا کہتی ہے اتنی عمر ہوگئی ہے بچے بڑے ہوگئے ہیں وغیرہ جبکہ طوائف اپنے پاس آنے والے مرد کو کبھی نہیں کہتی تم بوڑھے ہو تمہارے بچے جوان ہیں وغیرہ وہ مرد کو پہلی رات کا دلہا سمجھ کر استقبال کرتی ہے اور مرد یہی چاہتا ہے کہ وہ مرتے دم تک دلہا بنا رہے طوائف ہر رات تین چار گاہک نمٹاتی ہے مگر ہر گاہک کو خندہ پیشانی سے سنبھالتی ہے ہزاروں ہاتھوں میں جانے کے باوجود طوائف ہر مرد کو یہ باور کرواتی ہے جیسے وہ ان چھوئی کلی ہو چھوئی موئی ہو اور وہ مرد اس کی زندگی میں آنے والاپہلا مرد ہے اور مرد یہی تو چاہتا ہے کہ اسے ہر رات نئی نویلی دلہن ملے جبکہ بیوی دوسال بعد ایسے بیزار ہوجاتی ہے جیسے صدیوں سے یہ کام سر انجام دے رہی ہو اس کام سے تھک چکی ہو شوہر جب بیوی کے پاس جاتا ہے تو وہ اس فعل میں اکیلا ہوتا ہے اور بیوی مردے کی طرح بے جان ہوتی ہے وہ ایسے ٹھنڈی ہوجاتی ہے جیسے لاش ہو بھلا لاش سے کوئی مرد کیسے لظف اندوز ہوسکتا ہے؟؟ جبکہ طوائف سومرد بھگتا کے بھی ہر گاہک کے لیے ایسی پرجوش ہوتی ہے اپنے وجود کی گرمی سے مرد کو ممتا فراہم کرتی ہے وہ مردکو یقین دلاتی ہے کہ وہ ایک بچے کی طرح ہے مرد خود کو بے فکرا کھلنڈرا بچہ سمجھتا ہے مرد ہر رات سہاگ رات چاہتا ہے اور یہ چیز اسے طوائف مہیا کرتی ہے اسی لیے وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر طوائف کے پاس دوڑا آتا ہے” دیا بہت غور سے چاندنی کی باتیں سن رہی تھی ہر چیز کا اہتمام ہوتا ہے لوگ کھانا کھاتے ہیں تو دسترخوان بچھایا جاتا ہے سلاد ، دہی ، اچار ہر چیز کا اہتمام ہوتا ہے کسی شادی میں جا تو نہانا اچھا لباس پہننا خوشبو لگانا میک اپ کرنا سب ہوتا ہے ہر چیز ہم اہتمام سے کرتے ہیں مگر جو دنیا میں سب سے اہم چیز ہے “ملاپ” جس سے روحیں تشکیل پاتی ہیں اس کے لیے کوئی اہتمام نہیں ہوتا اور ہر جگہ بیوی ہی نہیں شوہر بھی قصوروار ہوتا ہے عام گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ پہلے سے میاں بیوی کی کمٹمنٹ نہیں ہوتی کوئی تیاری نہیں ہوتی ، مرد کمرے میں آتا ہے عورت کو اٹھایا یہ تک نہیں دیکھتا وہ کس حال میں ہے اس کی دلی ذہنی کیفیت کیا ہے؟ بس اپنی ضرورت پوری کرکے بات ختم ایک مشینی عمل کی طرح اتنا خوبصورت عمل انجام دے دیا جاتا ہے۔ “تمہارا کیا خیال ہے چاندنی ،میاں بیوی میں یہ عمل کیسے ہونا چاہیے؟” دیا نے اچانک سوال داغ دیا” “دیکھو دیا ،ایک ذہین عورت ہی یہ فعل خوبصورتی کے ساتھ سر انجام دے سکتی ہے اور ہر ذہین عورت کے نصیب میں قابل مرد نہیں ہوتا”چاندنی نے ہنس کے کہا “کیا مطلب؟” دیا نے الجھ کے پوچھا “دیکھو دیا تم نے مجھ سے سوال پوچھا ہے کہ میاں بیوی میں یہ عمل کیسے ہونا چاہیے تو کسی جگہ سمجھدار قابل مرد ہوتا ہے بیوی بیوقوف ہوتی ہے کسی جگہ بیوی ذہین ہوتی ہے تو مرد بے کار مل جاتا ہے اور جہاں قسمت سے میاں اور بیوی دونوں سمجھدار ہوتے ہیں وہ جنسی فعل کو مکمل خوبصورتی اور ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں” جہاں تک میرا خیال پوچھا ہے تم نے تو میں تو سیکس سے پہلے مکمل طور پہ خوشبو کی قائل ہوں کمرے میں خوشبو بستر پہ پھول خوشبو بدن پہ خوشبو بالوں میں خوشبوئیں سیکس کو عبادت کی طرح کرو یہ مندر کی گھنٹیاں ہیں جب وجود ملیں روح میں گھنٹیاں بجیں ملاپ سے روحیں تشکیل پاتی ہیں جنسی عمل ہو تو کمرے میں موسیقی کا اہتمام ہو، دھیمے سر ہوں خوشبو پھول بارش شاعری انگلیوں کی پوروں سے بدن پہ ساز بجے بدن پہ ہونٹوں کی سرسراہٹ ہو لوگ سمجھتے ہیں سیکس دوپل کا کھیل ہے نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے یہ لڈو کی گوٹ کی طرح ہے جیسے لڈو کی گوٹ چھکے پہ گھر سے نکلتی ہے گلیاں گھومتی ہے ویسے ہی کوئی قابل مرد ذہین عورت کے وجود کی بند قبائیں کھولتا ہے چولی سے لیکر بلاز تک ہونٹوں سے ایسے ملاپ ہو کہ فرشتے ناز کریں آسماں جھوم اٹھے سر کے بالوں سے پاں کی ایڑی تک رگ رگ چومی جائے یہ روحوں کا ملاپ ہے اس میں روحیں تشکیل پاتی ہیں یہ عمل بے زاری سے نہیں مکمل ذمہ داری سکون سے ادا کیا جائے، جیسے گوہر نایاب کی تلاش ہو اور گوہر نایاب پالیا جائے مکمل سرشاری ہو اور یہ سرشاری مرد کو یا تو طوائف دیتی ہے اسے پیسوں کی طلب ہوتی ہے جتنا مرد خوش ہوگا اتناطوائف کا دامن بھرے گا یا پھر وہ عورت عطا کرتی ہے جسے مرد سے عشق ہو تم جانتی ہو عشق کا نشہ جدا ہے تم نے تو کیا ہے عشق دیا تم جان سکتی ہو”چاندنی پورے جذب سے دیا کو سمجھا رہی تھی دیا بہت عقیدت سے چاندنی کو دیکھ رہی تھی “مرد کو چاہیے کہ جیسی توقع بیوی سے رکھتا ہے کہ وہ خوشبو میں بسی ہو ایسے ہی خود کو خوشبو سے مہکائے بیوی ہو یا طوائف اس کا حق ہے مرد پہ کہ وہ اس پہ نچھاور کرے جس کی وہ حقدار ہے عورت مفت کامال نہیں ہے دیا کان کی لو کو لبوں سے چھونے کے ذائقے کا مول نہیں ہے اور مرد سمجھتا ہے عورت مفت کامال ہے” مرد سمجھتا ہے اس نے بیوی کو گھر دے دیا بچے ہیں کپڑے ہیں سب کچھ ہے پیسے بھی دے دئیے اب بات ختم ہے جبکہ عورت چاہتی ہے کہ شوہر اس کے لیے کوئی چیزکوئی تحفہ لازمی لائے عورت خود سے خریدی لاکھوں کی چیزوں میں وہ خوشی محسوس نہیں کرتی جو مرد کی لائی چند پیسوں کی چیز میں محسوس کرتی ہے بھلے اس کے پاس سب کچھ ہو مگر جب شوہر بیوی کے لیے کوئی چیز لاتا ہے جو صرف بیوی کے لیے ہوتی ہے جیسے ہی خلوت کے لمحات میں بیوی کو وہ چیز دیتا ہے بیوی کے چہرے کی خوشی کی چمک لافانی اور الوہی ہوتی ہے مگر مرد بہت کم ایسا کرتا ہے جیسے بیوی کہتی ہے وہ گھر کی ذمہ داری سے تھک گئی ہے ایسے شوہر سمجھتا ہے کہ وہ آفس سے تھک چکا ہے اب کیسے بیوی کے لیے کچھ لیکر جائے، بعض دفعہ معاملہ دونوں طرف سے خراب ہوتا ہے “بہرحال امید ہے تمہیں تمہارے سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ مرد بیوی کو چھوڑ کر طوائف کے پاس کیوں آتا ہے مرد بھلے بوڑھا ہوجائے وہ بچہ رہتا ہے وہ لاڈ چاہتا ہے اسے یہ لاڈ طوائف کی گود میں سر رکھ کے حاصل ہوتا ہے” ناول طوائف ذادی سے اقتباس مصنفہ—-ریحانہ رانا قارئین کرام کہانی میں صرف تسکین کو مرکز مرد کو رکھا گیا ہے اور مشرقی عورت کو بالخصوص ایسا ظاہر کی گیا ہے اس دور میں بھی وہ اپنے شوھر کے ساتھ پتھروں کے دور والا سلوک کررہی ہے جو غلط ہے میری زاتی رائے تو یہ ہے آپ زمانے کے حساب سے خود کو بدلیں اور خاتون کو بھی ان سے کھل کر بات کریں جو تسکین باہر جاکر حاصل ہو اس میں شر ہے خطرہ ہے گناھ ہے اپنے گھر میں وہ تسکین اور اطمینان مل جائے تو کیا مضائقہ ہے امید ہے قارئین اس دفعہ کے مقالہ کو اگر طبعیت پر گراں گزرا ہو تو درگزر فرمائیں گے میری دعا ہے ہر زن و شوھر کے مابین عشق زلیخا جیسا معاملہ ہو اور وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکیں تو دنیا سے علیحدگی و طلاق ختم ہوجائے، آمین!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here