فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
11

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! امیرالمئومنین، خلیفہ المسلمین، خلیفہ اوّل بلافصل، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت سیدنا عبداللہ ابوبکر صدیق عتیق بن الوقھافہ عثمان رضی اللہ عنھا بائیس جمادی الثانی ١٣ سنہ ھ کو وصال باکمال پا گئے تھے۔آج تقریباً چودہ سو چونتیس سال ہوگئے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی تعلیمات اور ذکر مکمل طور پر تروتازہ ہے کیوں نہ ہو؟ اسے محبت مصطفیٰ ۖ کا پانی لگا ہوا ہے۔ یہ قیامت تک جاری وساری رہے گا اسے نہ کوئی روک سکا ہے نہ روک سکتا ہے اور نہ کوئی روک سکے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سی آیات طیّبات ہیں احادیث مبارکہ کا تو ایک ذخیرہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی جلّ جلالہ ہے: ترجمعہ: اے مسلمانو! اگر تم میرے محبوب کی نہ مدد کرو گے تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تو ان کی اس وقت مدد فرمائی جب کفار کی شرارت سے ان کا مکہ سے باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب کہ وہ دونوں غار میں تھے۔ جب محبوب اپنے یار غار سے فرماتے تھے کہ غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر سکینہ اتارا اور ایسے لشکروں سے اس کی مدد فرمائی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا۔ اور کافروں کی بات نیچے ڈال دی۔اور اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (سورہ توبہ پارہ نمبر1) تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ سورہ توبہ کی یہ مقدس آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل وکمالات میں نازل ہوئی ہے اور تمام مفسرین ومئورّخین کا متفقہ بیان ہے کہ ”غار ثور” میں ہجرت کی رات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بھی محبوب خدا ۖ کا یار غار وفادار اور رفیق غم گسار نہیںتھا اور واقعی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت احمد مختار ۖ کے ایسے یار غار اور وفادار جاں نثار ثابت ہوئے کہ وفاداری و جاں نثاری کی انتہائی منزل بیان کرنے کے وقت آپ کا نام ضرب المثل بن گیا ہے چنانچہ آج بھی اگر کوئی شخص کسی کا انتہائی محبت وغم گسار اور اعلیٰ درجے کا یار وفادار اور رفیق جاں نثار ہوتا ہے تو اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ ”فلاں شخص تو فلاں کا یارغار” ہے جناب بشیر احمد امروہی نے کیا خواب خراج تحسین پیش کیا ہے:
دشمن میں دیکھتا ہوں جیسے یارغار کا۔۔۔۔جی چاہتا ہے نوچ لوں منہ اس گنوار کا
قرآن نے اُن کو ”ثانی اثنین ” کہہ دیا۔۔۔۔ثانی نہیں خدا کی قسم یار غار کا
اس آیت مقدسہ میں جس کا ترجعہ اوپر ذکر ہوا ہے اِذیَقُولُ یِصاحیبہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت ثابت ہوتی ہے اس لئے آپ کا صحابی ہونا اتنا قطعی و یقینی ہے کہ اگر کوئی بدنصیب آپ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ قرآن کا منکر اور کافر ہو جائے گا(العیاذباللہ) اسی طرح اس آیت میں فَاَنزَلَ اللہ سَیکنَتہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند قدوس نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اپنا ”سکینہ” اتارا۔ یعنی اپنی طرف سے قلبی اطمینان اور روحانی تسکین کا سامان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کیلئے ہیں۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اس آیت میں عَلَیہِ کی ضمیر(ہ) کا مرجع یقیناً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور اللہ پاک نے سکینہ انہیں پر اتارا کیونکہ نبی کریم علیہ الصّلٰوة والسّلام کا مقدس سینہ تو ہمیشہ اور ہر حال میں سکینہ الٰہی کا سفینہ رہا اور آپ کا قلبی اطمینان تو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی زائل ہی نہیں ہوا تھا۔ اس لئے ”غار ثور” میں آپ ۖ پر سکینہ اترنے کے کوئی معنیٰ ہی نہیں ہیں۔ گھبراہٹ اور بے قراری تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کے قلب میں ہے تھی جو سکینہ اترنے سے کافور ہوگئی۔ لہذا خداوند قدوس نے اپنے حبیب ۖ کے یارغار کے قلب اطہر کو سکون و قرار بخشنے کے لئے اپنا سکینہ نازل فرمایا۔
اے اہل اسلام! یہ ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت وشان اور بلند رتبہ کہ خداوند قدوس نے ان کی صحابیت پر اپنی شہادت کی مہر لگا دی۔ اور ان کو اپنے محبوب کا یارغار بنا دیا۔ یہ ایسی عزت اور شان ہے جو کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ کو نصیب نہیں ہوئی خدا کی قسم! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سر صداقت پر یہ اعزاز واکرام کے وہ تاج شہنشاہی ہیں جنہیں دیکھ کر اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اسی طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت شان کا بیان کرتے ہوئے قرآن پاک نے اعلان فرمایا ہے: ترجعہ: جہنم یہ بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال اس لئے دیتا ہے تاکہ وہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے وہ صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک عنقریب وہ خوش ہو جائے گا مطلب اس آیت مقدسہ کا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ وہ اپنے نفس کو پاک اور ستھرا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اوپر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ احسان کا بدلہ چکانے کے لئے مال خرچ کرتے ہیں۔ ان کا مقصود تو صرف اس قدر ہے کہ ان کرب کریم ان سے خوش ہوجائے چنانچہ رب العزت نے خوش ہو کر وعدہ فرمایا کہ وہ صدیق اکبر کو ایسی جزا عطا فرمائے گا کہ وہ بھی اپنے رب سے راضی اور خوش ہو جائے گا۔ ان آیات طیبات میں اللہ پاک نے کافروں کے اعتراضاتت کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ جو کہتے تھے کہ ابوبکر غلاموں کو خرید کر اس لئے آزاد کرتا ہے کہ ان کا اس پر کوئی احسان ہوگا۔ اللہ پاک آپ پردرجات مزید بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here