”گو ٹو ہیل”

0
16
عامر بیگ

ہاں یہی الفاظ تھے جو میرے لبوں سے یوں نکلے جیسے کسی چائے کی پیالی سے بھاپ نکلتی ہے ،اچانک، بغیر اجازت، اور بے قابو، میں تنگ آ چکا تھا ان بیسیوں جنک کالوں سے، جو یوں میرے موبائل پر ٹوٹ پڑتی تھیں جیسے ٹڈی دل کسی کھیت پر۔ دن رات، صبح شام، سحری افطاری، یہاں تک کہ نیند کے آغوش میں بھی یہ کالیں میری پلکوں کو کھینچ کر جگا دیتی تھیں۔ فون میرے ہاتھ سے یوں چپکا رہتا تھا جیسے کوئی جنی میری انگلیوں سے گوند کی طرح چپک گئی ہو۔ بالآخر مجبورا میں نے اپنے موبائل کی گھنٹی کا گلا گھونٹ کر اسے وائبریٹ موڈ پر لگا دیا تھاکہ جنبش ضرور ہو مگر ہنگامہ نہ ہو۔ دو دو گھنٹے بعد اسے ایسے دیکھتا جیسے کوئی زاہد دنیا سے منہ موڑ کر کبھی کبھار درویشانہ آنکھ کھول کر دنیا کی طرف جھانک لے۔ اگر کوئی ضروری پیغام ہوتا تو واپس کال کر لیتالیکن ضروری پیغامات تو ویسے بھی اب میوزیم میں ملتے ہیں، فون پر نہیں۔ دوست احباب بھی جان چکے تھے کہ یہ نمبر ایسا ہے جس پر کال کرنا ایسا ہی ہے جیسے دریا میں کنکری پھینک کر دعا مانگنا کہ شاید لہریں نام لے کر جواب دیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ میرا نمبر اب عوامی ملکیت بنتا جا رہا تھا۔ شاید کہیں اقوامِ متحدہ کے نوٹس بورڈ پر بھی چسپاں ہو چکا تھا۔ میرا نمبر ایسا ابتر ہو چکا تھا جیسے کسی پرانے درویش کی جھولی جس سے ہر راہگیر کو چھانکنے کا حق حاصل ہو۔ لوگ شاید کال کرنے کے علاوہ دنیا کا ہر کام بھول چکے تھے۔ اوئے بھئی! کچھ کام کرو، کچھ غور و فکر کرو، کچھ عبادت و ریاضت کرو مگر نہیں! ہر فراغت کا انتقام میرے نمبر سے لینا ضروری تھا۔ چلو کوئی عزیز، کوئی رشتہ دار، کوئی سنجیدہ ادبی شخصیت اگر فون کر لے، کسی غزل کا مصرعہ ڈسکس کر لے، یا کسی لفظ پر گھمسان کا معرکہ کر لے تو برداشت ہو سکتا تھا۔ مگر یہ کالیں؟ یہ نو ملین ڈالر کی قسمت آزمانے والے فرشتے؟ یہ وہ لوگ جنہیں نائیجیریا کی ہوا لگی ہوتی ہے اور جن کی انگریزی ہیلو کہتے ہی نائیجیریا کا جغرافیہ خود بخود ذہن میں بن جاتا ہے۔ اب تو میں اتنا ماہر ہو گیا تھا کہ صرف سانسوں کی تال دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ یہ کالر کون سی دھوکے بازی کا چیمپئن ہے۔
اکثر ایسا ہوتا کہ میں ان سے پہلے کہہ دیتا، بھائی صاحب!ہم کب اور کہاں ملے تھے؟ تو دوسری طرف خاموشی چھا جاتیایسی خاموشی جیسے کسی بچے کی شرارت پکڑی جائے۔ کئی ٹیلی مارکیٹر تو یوں بھاگتے جیسے نسوانی کمپیوٹر وائس ختم ہوتے ہی میرا ہیلو سن کر انہی پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ ایسا لگتا جیسے وہ سمجھتے ہوں کہ میں ان کے سامنے بیٹھا ہوں اور ہاتھ میں ڈنڈا تھامے جواب طلب کر رہا ہوں۔ اوپر سے دیس پردیس میں بکھرے بہن بھائی انہیں شاید سورج اور چاند کا فرق بھی یاد نہیں رہتا۔ ان کے حساب سے وقت کی کوئی قید نہیں، بس مطالبہ وقت پر ہونا چاہیے۔ وہ ایک خاص نرم لہجے میں مجبوری کی داستان ایسے سناتے جیسے فلم مادرِ ہند کا کوئی دل ہلا دینے والا سین ہو۔ اور میںجو اندر سے اب بھی کچھ نرم اور کچھ احمق ہوںدل پگھلا بیٹھتا اور کچھ نہ کچھ بھیج دیتا۔ پھر شاعر خواتین و حضرات کا الگ کارواں تھا۔ ایک آدھ تو یوں کہہ چکی تھیں کہ !
آپ تو بس دو دن میں ہمیں اپنی شاعری تھما دیں، کتاب ہم خود مرتب کر دیں گے۔ بس قیمت برائے نام!
میں نے ادب سے عرض کیا کہ !
بی بی! شاعری میں دل بہلاتا ہوں، دنیا نہیں بدلتا۔ اس میں کاروبار کی ہوا لگ جائے تو شعر کا دم نکل جاتا ہے۔ روزانہ درجنوں کالیں آتیں جنہیں میں اکثر دانستہ نظر انداز کر دیتامگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ آج کی سبھی کالیں اٹھاں گا اور سب کو دو ٹوک کہہ دوں گا کہ میرا نمبر اپنی فہرست سے نکال دیں۔ مگر انسان سوچے کچھ اور ہو کچھ!
میرے یہی رحم دلانہ فیصلے نے الٹا یہ ثابت کر دیا کہ!
یہ نمبر لائیو ہے، اس بندے میں دم ہے، جواب بھی دیتا ہے!
اور یوں کالوں کی تعداد میں یوں اضافہ ہوا جیسے بارش کے بعد کھمبیاں اگتی ہیں۔ اے آئی کا بھی بھلا ہو۔ وہ بھی نجانے کہاں کہاں سے معلومات اکٹھی کر کے میرے نمبر کو بہترین شکار تصور کرنے لگی۔ ایک نے کال کر کے کہا: سر! ہم نے سنا ہے آپ کو کانوں سے کم سنائی دیتا ہے۔ ہم اچھے سے اچھا آلہ سماعت دے سکتے ہیں!
میں نے دل میں سوچا:
لو بھئی! اب میری بہری روح بھی ان کے ڈیٹا میں محفوظ ہو گئی۔ رقم نہ ہو تو قسطیں ہیں، قسطیں نہ ہوں تو انشورنس۔ میں نے کہا کہ شاید ان کے مطابق میں ایسا غریب ہوں جس کے پاس صرف ایک ہی اثاثہ باقی ہییعنی میرا فون نمبر! اس کے بعد طبی دنیا کی مہربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کوئی میرے عضو مخصوصہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا، کوئی اسے بہتر بنانے کا نسخہ سناتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری ساری بیماریوں کا ٹینڈر بازار میں لگ چکا ہو۔ پھر ایک صاحب نے بڑے جذبے سے پوچھا: سر! پچھلے دو سال میں کوئی روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا؟ میں نے جواب دیا: ہوا ہوتا تو پہلے آپ کو بتا کر رپورٹ کر دیتا؟ کوئی کہتا: سولر پینل نہ لگوایا تو دھرتی ماں رو پڑے گی! کوئی کہتا: کھڑکیاں بدل لیں ورنہ آپ کا پیسہ ہوا میں اُڑ جائے گا! کوئی میری صحت کے لیے میڈی کیئر کا نمائندہ بن جاتاایسا نمائندہ جو اپنی صحت کے لیے شاید چل کر پانی بھی نہ بھر سکے۔ یہ سب میں سہتا رہا، خاموشی کے تالاب میں پتھر گرتے رہے مگر ایک دن ایک کال نے میرا تعامل، میرا صبر، اور میری ہنسی سب چھین لی۔ فون وائبریٹ ہوا۔ میں نے تھکے ہوئے انداز میں کال اٹھائی۔ ادھر سے نہایت سنجیدہ آواز آئی: سر، میں حکومت کی طرف سے آپ کے فائنل ایکسپنس کے بارے میں کال کر رہا ہوں۔ آپ کے آخری سفر کے اخراجات کے لیے ایک مناسب پالیسی نکالی گئی ہے
میں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔ اس نے آگے بتایا کہ مرنے کے بعد فیونرل ہوم کیا کرے گا، کہاں کرے گا، کس طرح باڈی کو محفوظ کرے گا، کپڑے پہنانے ہیں، میک اپ کرنا ہے، گاڑی سے قبرستان لے جانا ہے اتنی تفصیل سے وہ مجھے پرلوک کی راہ دکھا رہا تھا کہ مجھے لگا ابھی میری روح خود آسمان کی کھڑکی سے جھانک کر پوچھے گی: او بھائی! ابھی تو سانس چل رہی ہے نا؟ اس کے مطابق سب کچھ سات سے دس ہزار ڈالر میں، اور پھر قبر کھودنے اور دفنانے تک کے پیکیج بنا کر یوں پیش کیے جا رہے تھے جیسے شادی ہال کا ریٹ بتایا جاتا ہے۔ آخر میں اس نے کہا: سر، یہ سب آپ کی سہولت کے لیے ہے۔ آپ کی عمر بھی ہو چکی ہے میں نے سانس لی، گلا صاف کیا، اور کہا: بھیا! تمہاری انہی کالوں کی وجہ سے میں کب کا فوت ہو چکا۔ یہ آواز قبر سے آ رہی ہے۔ دوسری طرف چند لمحے سناٹا چھایا۔ پھر وہی آواز، مگر اس بار تھکی ہوئی، چڑچڑی، اور بے بس:
گو ٹو ہیل! اور فون بند۔ میں نے موبائل میز پر رکھا! اور ہنسنے لگاایسی ہنسی جو رونے کے برابر ہوتی ہے۔ پھر قلم اٹھایا اور یہ سب لکھنے بیٹھ گیا کہ شاید میرا بھی کچھ کتھارسس ہو جائے۔ ورنہ جنک کالوں کے اس جہنم میں تو زبان پر دن رات صرف ایک ہی لفظ آتا ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here