گزشتہ دو ہفتوں سے بنیادی طور پر ہمارا کالم پاکستان و افغانستان تنازعتی حالات اور قطر و ترکیہ ثالثی مذاکرات کا موضوع ہی رہا، ہم نے پچھلے کالم میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جو عرض کیا تھا وہی سامنے آیا، قارئین ان حقائق سے آگاہ ہو چکے ہیں، چار ادوار میں کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کے بعد ثالثوں کے اصرار پر تیار کردہ سیز فائر کے تسلسل کی دستاویز پر ثالث تو کچھ نہ کر پائے، البتہ پاک فوج نے نہ صرف ٹی ٹی اے کا سافٹ ویئر سیدھا کر دیا بلکہ ٹی ٹی پی کا نمبر 2 کمانڈر مفتی یا قاری امجد جہنم رسید ہوا۔ مثل مشہور ہے کہ سانپ اپنی ڈسنے کی فطرت سے باز نہیں آتا جب تک اس کا سر نہ کُچل دیا جائے، کچھ یہی صورتحال ان طالبانوں کی ہے اور اب تو یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، جس کی تصدیق ان ویڈیوز اور دیگر ثبوتوں سے ہو چکی ہے جو قطری و ترک ثالثوں کو فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان دشمنی کے اس ہنگام میں مودی ریاست کا ایجنڈا بھی ڈھکا چھپا نہیں جو طالبان کو نہ صرف ہر طرح سے سپورٹ کر رہی ہے بلکہ خود بھی محاذ آرائی میں آمادہ ہے۔ بھارتی حکومت کی جنگی تیاریوں کا منہ توڑنے، جاسوس اجمل کے پکڑے جانے اور وکرانت کو لاک کر دینے کا بندوبست تو ہماری مسلح افواج اور ایجنسیز نے بحمد اللہ کر دیا لیکن ایک سوال ہمارے ذہن میں ضرور آتا ہے کہ کیا ہم بالخصوص سیاسی حوالوں سے ایک قوم بن کر کھڑے ہیں۔
پاکستان یقیناً عالمی اُفق پر عسکری، سفارتی اور خطہ میں اہم حیثیت کا حامل ہے لیکن کیا یہ حقیقت کسی طرح بھی ایک سچائی نہیں کہ ہم سہ طرفہ دشمنوں یعنی دہشتگردی، افغانستان و بھارت سے بر سرپیکار ہیں۔ قوم کی یکجائی کسی بھی مملکت کی سالمیت، بقاء اور کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے لیکن کیا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم قوم کو مجتمع رکھے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز کے حالات پر نظر ڈالیں تو سیاسی ماحول، معاشی و معاشرتی معاملات میں بوجوہ افتراق و تقسیم اجتماعیت پر سوال ضرور اُٹھتے ہیں۔ ایک جانب حکومتی اشتراک میں مفاد کی رخنہ سازی نظر آتی ہے تو دوسری طرف دو بڑے صوبوں کے درمیان لفظی گولہ باری اور دیگر دو صوبوں میں دہشتگردی کا عفریت متحرک ہے۔ کے پی کی صورتحال خصوصاً شدید تشویش اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے جو دہشتگردی کی سیچویشن سے حد درجہ متاثر ہی نہیں، ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق افغان ٹرانزٹ و منشیات کی ٹریفکنگ اور 12 ہزار ایکڑ پر پوست کی کاشت کی وجہ تشویشناک ہے جس میں بہت سے سردار، سیاسی و کاروباری شخصیات کے اشتراک ہیں۔ اس صوبے میں موجودہ رجیم کی مخالف اور عوام کی سب سے مقبول جماعت کی حکومت ہونے کی وجہ سے محض اس لئے پنپنے نہیں دیا جاتا کہ مقتدرہ اور اس کے وفاقی آلۂ کار اس جماعت کے قائد اور عوام کے محبوب رہنما عمران خان کو اپنے لئے سیاسی خطرہ گردانتے ہیں، ان حالات میں جو اس وقت وطن عزیز کو درپیش ہیں، مائنس عمران کی کوششیں، صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ سے معاندانہ رویہ، 27 ویں ترمیم لانے اور عدالتی نظام پر اثر انداز ہونا ہر گز مناسب نہیں اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ وقت و حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ تمام اکائیاں باہم یکجہتی، قومی مفادات اور وطن کے تحفظ و سلامتی کیلئے اپنے ذاتی، عصبی و جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اصل دشمن قوتوں کیخلاف آہنی دیوار بن جائیں۔ عمران خان پاکستانی ہے، سابق وزیر اعظم ہے، ورلڈ کپ کا فاتح، فلاحی و طبی ادارے کا بانی و سربراہ اور سب سے بڑھ کر عوام کا مقبول و محبوب قائد ہے، وطن عزیز کے تحفظ اور عوام کی یکجہتی کیلئے عمران سے مثبت سلوک اور اسے ساتھ لے کر چلنا نہ موجودہ رجیم کیلئے برا ہو سکتا ہے نہ ہی وطن و قوم کیلئے منفی ہو سکتا ہے، وطن پیارا سلامت رہنے کیلئے اتحاد، اتفاق اور اخلاص ہی تو بنیان المرصوص ہے۔
اتحاد بھی، تنظیم بھی، محکم ہو یقیں بھی
حکمت کا تقاضہ ہے کہ وحدت میں امن ہو
٭٭٭
















