” بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں”

0
38
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

”بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں ”محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آجکل کے معاشرے میں جہاں عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر بات کی جاتی ہے اور بحیثیت ماں ، بیٹی ، بیوی اسکے حقوق پر کھل کر اظہار خیال کیا جاتا ہے انکے تحفظ کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں ان تمام کوششوں کے باوجود مطمئن نہیں ہوپاتے خاص طور پر بیٹیوں کے معاملات میں کہاں اسکی شادی کا زکر آیا وہیں ایک لامتناہی وساوس کا سلسلہ نہ رکنے والے خدشات زندگی میں آنے والے خاندان سے متعلق جانچ و پڑتال کے ساتھ ہی اس فریضہ کو ادا کرنے کیلئے وسائل اور حتی المقدور وسائل کا مہیا کیئے جانا کہ عزت سے یہ کام نمٹ جائے بیٹی رخصت ہوکر گھر جائے میں آج ایک ایسی کہانی آپکو پیش کرنے جارہا ہوں ایک ایسی نیکی جو ملک کے نامور اسٹیج فنکار دلادار پرویز بھٹی صاحب سے منسوب ہے آج وہ آسودہ خاک ہیں لیکن اس قسم کی نیکیاں ہی آج ایک رحمت کا شجر بن کر انکی قبر کو روشن کررہی ہونگی اور انکے درجات جنت الفردوس میں بلند تر ہورہے ہونگے میں آپکے اور کہانی کے بیچ سے دور ہوتا ہوں آپ پڑھیں اور پھر ہم اس پر تبصرہ کریں گے ۔ جمیل بسمل صاحب کہتے ہیں کہ میری بیٹی کی شادی تھی میں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی بچی کیلیے جہیز تیار کیا اور ہم لوگ جہیز کی تیاری میں ایسے جتے کہ ہوش ہی نہ رہا کہ کب پیسے ختم ہو گئے (کم رہ گئے)اب ہمیں پریشانی ہوئی کہ ابھی کھانا ، کیٹرنگ اور لائٹ ڈیکوریشن کا خرچہ وغیرہ کیسے پورا ہو گا(یاد رہے یہ 80 کی دہائی کی شروعات تھی تب زیادہ تر شادیوں کا انتظام کھلی گرانڈز وغیرہ میں کیا جاتا تھا )ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کسی رشتہ دار سے پیسے مانگ لیتے ہیں لیکن اس میں ایک قباحت تھی کہ رشتہ دار بعد میں طرح طرح کی باتیں بناتے اسلیے اس بات کو رد کر دیا گیا پھر یار دوستوں کا ذکر چھڑا تو سب سے پہلے میرے ذہن میں دلدار بھٹی کا نام آیا تو شام کو ہم میاں بیوی دلدار بھٹی کے گھر چلے گئے بھٹی نے بڑی خاطر مدارت کی ، اسکے بعد اس نے پوچھا جمیل بھائی کیسے آ نا ہوا تو ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی نہ بول سکے (ہمیں اس وقت ڈیڑھ لاکھ روپے کی ضرورت تھی)اور خاموشی سے ایکدوسرے کو تکتے رہے اسی اثنا میں بھٹی نے پوچھا کہ ہماری بِٹیا رانی کا کیا حال ہے تو میں ہمت کر کے صرف اتنا ہی بول پایا کہ اس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں اتنا سن کر بھٹی کچھ لمحے مجھے اور میری بیگم کے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر بولا جمیل بھائی دِھیاں سب دیاں سانجھیاں ہوندیاں نیں پریشان نہیں ہونا اگر کسی چیز کی ضروت ہو تو مجھے بتا دینا لیکن اتنا سننے کے بعد بھی میں بھٹی کے سامنے اپنے آنے کا مدعا بیان نہ کر سکا اور ہم دونوں میاں بیوی گھر واپس آ گئے ہم دونوں ہی خاموش تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب ہمارا کیا بنے گا ڈیڑھ لاکھ روپے کا بندوبست کیسے ہو گا(یاد رہے کہ ان دنوں ڈیڑھ لاکھ کا شمار ایک بڑی رقم میں ہوتا تھا)جیسے تیسے کر کے رات کٹی صبح ابھی ہم ناشتہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے ڈور بیل بجائی میں اُٹھ کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بھٹی منہ لٹکائے میرے سامنے کھڑا ہے میں اسے دیکھ کر سٹپٹاگیا کہ یااللہ کیا ماجرا ہے یہ ہر وقت ہنسنے مسکرانے والا بندہ اتنا افسردہ کیوں ہے میں نے پوچھا بھٹی خیریت ہے اتنی صبح کیس آنا ہوا تو وہ اسی طرح منہ لٹکائے ہوئے بولا جمیل بھائی مجھے ناشتہ کرنا ہے آپ لوگوں کے ساتھ تو میں اس کھینچ کر اندر لے آیا یہ کہتے ہوئے کہ تیرا اپنا گھر ہے چل آ جا مِل کر ناشتہ کرتے ہیں جب ناشتہ آ گیا تو بھٹی نے ہم دونوں کی طرف دیکھا اور رونا شروع کر دیا ہم دونوں گھبرا گئے یااللہ خیر ، کچھ بتا تو سہی کہ آخر ماجرا کیا ہے تو بھٹی بولا جمیل بھائی آپ مجھے غیر سمجھتے ہیں میں نے کہا نہیں تو ، پر تم کیوں ایسا سوچ رہے ہو تو بھٹی نے کہا کیا تمھاری بیٹی میری بیٹی نہیں کل آپ لوگوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا لیکن آپ لوگوں کی خاموشی مجھے سب کچھ بتا گئی ، میں اپنی بیٹی کیلیے ایک چھوٹا سا نذرانہ لایا ہوں یہ آپ لوگوں کو قبول کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے میں سے کاغذ کے چند لفافے نکالے جو کہ ظاہری طور پر نوٹوں سے بھرے ہوئے تھے میں صرف اتنا ہی بول سکا کہ بھٹی اللہ تمھیں اس کا اجر دے گا اور جیسے جیسے میرے پاس پیسے آئیں گے میں تمھیں لوٹا دوں گا تو بھٹی نے کہا جمیل بھائی یہ میں نے آپ کو نہیں دئیے بلکہ اپنی بِٹیا رانی کیلئے دئیے ہیں ان کو واپس کرنے کا سوچنا بھی مت پھر ناشتے کے بعد بھٹی واپس چلا گیا تو ہم نے وہ پیسے گِنے تو وہ پورے دو لاکھ روپے تھے اللہ پاک اپنی شان کے مطابق ان کی کامل ترین مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے آمین ، ثم آمین یا رب العالمین قارئین کرام آپ نے غور فرمایا کس پائے کے لوگ تھے جو ہم میں نہ رہے آج انکی نیکیوں کے بوئے بیج انکو سرخرو کررہے ہیں ہم دعوت فکر دے رہے ہیں کہ جاگ جائیے آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں آپ بھی اس سے قبل کہ آپکی دنیا ایک قبر ویرانہ گھر ہو اسکو روشن کرنے کی تدبیر کرلیں کاش لوگ مرحوم دلدار پرویز بھٹی جیسے دل اور سوچ کے مالک بن جائیں تو دنیا میں کوئی بھی بیٹی پریشان نہ ہو ،کسی بیٹی کے باپ کو کبھی بھی کسی کے سامنے سوال کرنے اور اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے کاڈر نہ رہے، اے کاش لوگ یہ بات سمجھ جائیں تو انکی دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔ میری دعا ہے ہر بیٹی کے باپ بلکہ اس دور میں بیٹوں کے باپ کی بھی عزت محفوظ رہے اور والدین اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھیں، آمین خیر اندیش۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here