حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس نظام میں بہتری، اخراجات میں شفافیت اور سرکاری اداروں میں قانون پر عملدرآمد کے نام پر ایک ارب ڈالر کے دو غیر ملکی قرضے حاصل کیے جائیں۔ بظاہر یہ قدم اصلاحات کے عنوان سے اٹھایا جا رہا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا قرض سے اصلاح ممکن ہے؟ یا یہ بھی محض ایک اور کوشش ہے جو وقتی سہارا تو دے گی مگر دیرپا نتائج پیدا نہیں کر پائے گی۔رپورٹ کے مطابق 60 کروڑ ڈالر کا قرض ورلڈ بینک سے “پاکستان پبلک ریسورسز فار اِنکلیوسِو ڈیولپمنٹ پروگرام” کے تحت لیا جا رہا ہے، جبکہ 40 کروڑ ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے “ایکسلیریٹنگ اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائز ٹرانسفارمیشن پروگرام” کے نام پر حاصل کئے جائیں گے۔ موجودہ زرمبادلہ نرخ کے لحاظ سے ایک ارب ڈالر تقریبا 281 ارب روپے کے برابر بنتے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جس سے سینکڑوں سکول،ہسپتال یا ایک نیا ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا سکتا ہے، مگر یہ قرضے کسی نئی ترقیاتی سکیم یا اثاثہ کے لیے نہیں بلکہ بجٹ سپورٹ کے طور پر لیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض کی یہ رقم صرف حکومت کے روزمرہ اخراجات چلانے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں وقتی سہارا دینے کے لیے استعمال ہوگی، نہ کہ عوامی فلاح یا پیداواری منصوبوں کے لیے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق ان قرضوںسے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام لایا جائے گا اور مالیاتی دباو کم ہوگا۔ تاہم یہ وضاحت ایک طرح سے اعترافِ کمزوری ہے کہ حکومت اپنی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکی اور نہ ہی اخراجات میں کمی لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے بڑے قرضوں کی منظوری ابھی تک تاخیر کا شکار ہے، جس کے باعث حکومت کو دوسرے مالیاتی اداروں سے سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سہارا لینے کی قیمت ہمیشہ عام آدمی کو مہنگائی، نئے ٹیکسوں اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ ورلڈ بینک کا پروگرام وزارتِ خزانہ، ایف بی آر، بیورو آف اسٹیٹسٹکس، وزارتِ تجارت، پاور ڈویژن، وزارتِ ائی ٹی، پی پی آر اے اور آڈیٹر جنرل کے محکمے میں اصلاحات کے لیے ہو گا۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کے بارے میں برسوں سے کہا جا رہا ہے کہ شفافیت اور کارکردگی کے فقدان کے باعث ملک کی معیشت کمزور ہو رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں بھی انہی محکموں میں اصلاحات کے نام پر قرض نہیں لیے گئے؟ کیا نتائج مختلف نکلے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اصلاحات کے نام پر بارہا قرض لیے گئے، چاہے وہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہوں یا بیوروکریسی کے ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے، لیکن ان میں سے کوئی بھی منصوبہ عوامی سطح پر بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔وجہ سادہ ہے، اصلاحات کا تعلق رقم سے نہیں بلکہ نیت سے ہوتا ہے۔ جب تک حکمران طبقے کا عزم واضح اور غیر متزلزل نہ ہو، کوئی بیرونی قرض اداروں کو درست نہیں کر سکتا۔ قرض وقتی ریلیف ضرور دیتا ہے، لیکن اگر وہ بدعنوان نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو جلد وہی رقم طاقتور طبقات کی تجوریوں میں پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ روایت مضبوط ہو چکی ہے کہ اصلاحات کے نام پر لیا گیا سرمایہ حکومتی و افسرانہ شان و شوکت پر صرف ہو جاتا ہے۔ نئی گاڑیاں، دفاتر کی تزئین، بیرون ملک سیمینارز اور غیر ضروری مشاورتی منصوبے ، یہ سب قرض کی رقم کے استعمال کے نمایاں مظاہر ہیں، جبکہ گورننس کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔پاکستان میں مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ وسائل کے غلط استعمال کا ہے۔ اگر حکومت واقعی گورننس میں بہتری لانا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ وزارتی فضول خرچی، غیر ضروری پروٹوکول، سرکاری دورے اور غیر پیداواری سبسڈیز وہ دیمک ہیں جو خزانے کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ان کے خاتمے کے بغیر اصلاحات محض دکھاوا ہیں۔ بدعنوانی کا خاتمہ اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ قرض کی رقم سے نہ تو دیانت خریدی جا سکتی ہے اور نہ ہی نیک نیتی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو قیادت کے اندر سے آتی ہیں۔ پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ اب ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں قرض کے بغیر بجٹ مکمل کرنا ممکن نہیں رہا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرض ہی واحد راستہ ہے۔ حکومت کو ٹیکس نظام میں حقیقی اصلاحات لانی چاہئیں۔ ایف بی آر کو جدید ٹیکنالوجی اور شفافیت کے ذریعے فعال بنانا چاہیے تاکہ ٹیکس نیٹ وسیع ہو اور آمدن میں پائیدار اضافہ ہو۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی نجکاری یا تنظیمِ نو کو وقتی سیاسی نعرہ بنانے کے بجائے عملی سطح پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ منافع بخش بن سکیں۔ اگر حکومت اپنی آمدنی بڑھانے، اخراجات کم کرنے اور بدعنوانی ختم کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو اسے کسی بیرونی قرض کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن اگر یہی روش جاری رہی کہ ہر بحران کا حل قرض میں تلاش کیا جائے تو آنے والے برسوں میں قرض صرف ایک مالی نہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی بوجھ بھی بن جائے گا۔پاکستان کے عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، اور غیر یقینی معیشت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اب انہیں قرض کے سود کی قیمت بھی اپنے ٹیکسوں اور قیمتوں کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ گورننس میں بہتری پیسوں سے نہیں بلکہ نیت، شفافیت اور قانون کے بے لاگ اطلاق سے آتی ہے۔ اگر حکومت اس اصول کو سمجھ لے تو شاید ایک دن واقعی اصلاح ممکن ہو ، بغیر کسی نئے قرض کے۔
٭٭٭














