ڈاکٹر مقصود جعفری اردو ادب کے ان معتبر ناموں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی علمی بصیرت، شعری وجدان اور فکری گہرائی سے ادب کی کئی جہتوں کو روشن کیا۔ وہ شاعر بھی ہیں، نثر نگار بھی، محقق بھی اور مفکر بھی۔ زبانوں پر ان کی دسترس انہیں ایک عالمی حیثیت عطا کرتی ہے وہ اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پنجابی، کشمیری اور پونچی زبانوں میں یکساں روانی سے اظہار کرتے ہیں ان کی شاعری میں صرف جذبہ نہیں بلکہ شعور کی روشنی بھی شامل ہے۔ انسان دوستی، عدل، صداقت،روحانیت اور عشقِ حقیقی ان کے کلام کے بنیادی عناصر ہیں۔ وہ لفظوں سے ایسے منظر تراشتے ہیں جہاں دل کی تپش فکر کی گہرائی سے ملتی ہے ڈاکٹر مقصود جعفری کی شخصیت میں ایک خاص وقار، متانت اور حلیمی ہے۔ وہ اپنے بلند ادبی مقام کے باوجود عاجزی کو اپنا شعار بنائے رکھتے ہیں۔ علمی مباحث میں وہ تحمل اور شفقت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، اور نئے لکھنے والوں کو نہ صرف حوصلہ دیتے ہیں بلکہ راہِ ادب کی روشنی بھی دکھاتے ہیں ان کی گفتگو میں سنجیدگی، انکساری اور ذہنی وسعت کی آمیزش پائی جاتی ہے دنیا میں بعض ملاقاتیں ایسی ہوتی ہیں جو لمحے کی حد سے نکل کر عمر بھر کے لیے باقی رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری سے میری پہلی ملاقات تین سال پہلے 2023 میں ہوئی جب میں اپنی فیملی کے ہمراہ ناردرن ایریاز گھومنے نکلے تھے اس دوران میں کچھ دن اسلام آباد کے گیسٹ ہاس میں ٹھہری تھی اسی دوران جعفری صاحب سے ملنے کے لیے اپنے روٹیرین دوست فرخ انجینیئر کے ساتھ ان کے گھر گئی جہاں انہوں نے ہمارا بھرپور استقبال کیا اور پھر شام کی چائے اکٹھی پی اس دوران علمی و دابی گفتگو چلتی رہی بات ادب سے شروع ہوئی، فکر، تہذیب، اور شاعری تک پہنچی۔ وہ گفتگو میں سادہ مگر معنی آفرین تھے۔ان کے جملوں میں ایک ایسی روشنی تھی جو ذہن و دل پر نقش ہوتی چلی جائے۔۔ انہوں نے اس سلسلے میں مجھے کافی مفید مشورے بھی دیئے – گھر کے ڈرائنگ روم میں سجی تصویروں کے متعلق بتایا اور روانگی سے قبل مجھے اپنی تین کتابیں “روزنِ دیوارِ زنداں”،”چراغِ افکار”،The Ideals of Bhutto” بطور تحفہ عنایت کی اور واپسی پر وہ ہمیں دروازے تک چھوڑنے بھی آئے میری یہ ان سے بالمشافہ پہلی ملاقات تھی اس سے قبل ہم فیس بک اور واٹس ایپ گروپ سے ایک دوسرے سے آشنا تھے اور زوم مشاعروں میں بھی ملاقات رہتی تھی اس کے بعد جب 2025 میں پھر اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد آئی جہاں اکادمی ادبیات میں میری کتاب “پلکوں پہ سجے خواب ” کی رونمائی رکھی گئی تھی اور اس نشت کی صدارت جناب مقصود جعفری صاحب ہی نے فرمائی تھی اس تقریب کے بعد انہوں نے اپنی دو اور کتابیں”ادبی تبصرے”،اور”شورشِ جنوں”دی تھی – شعری مجموعہ شورشِ جنوں جس پر ایک خوبصورت نوٹ یوں تحریر تھا۔۔۔ “ممتاز شاعرہ، کالم نگار اور ادبی دانشور محترمہ شازیہ عالم شازی کے ذوقِ مطالعہ کی نذر۔۔ بصدخلوص و احترامات۔۔۔ مقصود جعفری۔۔۔”میں ایک مہینے بعد دوبارہ ستمبر میں اسلام آباد ایک نعتیہ مشاعرہ میں گئی تو وہاں بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ان ساری ملاقاتوں میں ایک بات تو واضح ہوئی کہ جعفری صاحب بڑے شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے انسان بھی ہیں جونیئر ادبا سے بھی اسقدر انکساری سے ملتے ہیں اور دورانِ گفتگو کبھی اپنے بڑے آدمی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ان کی آنکھوں میں علم و تجربے کی روشنی ہے- میں اگر یہ کہوں کہ وہ خود ایک چلتا پھرتا دبستان ہیں تو بے جانہ ہوگا -ان سے ملاقات کے لمحات میرے لیے محض ایک تحفہ نہیں بلکہ ایک اعتماد کی علامت بن گئے۔ان کی تمام کتابیں کافی عرصہ میرے مطالعہ میں رہیں جنہیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا تھا جیسے جذبوں کے درمیان عقل کی کرنیں رقص کر رہی ہوں چند اشعار اختصار کے ساتھ پیش کرتی ہوں
انتخابِ کلام از شورشِ جنوں
“غیروں سے تو ملاتا ہے نظریں وہ روز ہی
اے کاش میری سمت بھی اک دن نظر کرے
آنسو جو اک گرا مرے دامن پہ جعفری
شاید شبِ سیاہ کو رشکِ سحر کرے”
“شعر کہتا ہوں تو کچھ دل کو سکوں ملتا ہے
آتشِ اشک میں اب سوزِ دروں ملتا ہے
دل دھڑکنے کی سزا ملتی ہے اہلِ دل کو
یعنی دل والوں کو کچھ درد فزوں ملتا ہے”
“آندھیاں جتنی چلیں اِس کو بجھا سکتی نہیں
جو دیا میں نے جلایا ہے ہوا کے سامنے
منصفوں سے کچھ توقع ہی نہیں انصاف کی
مسئلہ یہ رکھ دیا میں نے خدا کے سامنے”
“پھول تھے جو شاخِ دل پر وہ تو مرجھانے لگے
زخم ہائے دل تری یادوں کو مہکانے لگے
زندگی کی دھوپ میں ہم جل کے خاکستر ہوئے
سایہ گیسو ملا تو ہم بھی سستانے لگے”
“کچھ دوریاں ضرور تھیں دونوں کے درمیاں
یہ فاصلے تو پہلے کبھی درمیان نہ تھے”
“سوچتا رہتا ہوں یہ طرزِ عبادت کیا ہے
اور ناکردہ گناہوں پہ ندامت کیا ہے؟
جعفری لوگ تو گلیوں میں نکل آئے ہیں
حکمران پوچھتے پھرتے ہیں بغاوت کیا ہے؟”
“میں تو تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
آیا ترا خیال تو اشعار آگئے
قیمت لگے جو سر کی تو کیسے لگے یہاں
دستار اپنی بیچنے سردار آگئے”
“یہ کس نے ہاتھ رکھا مسکرا کر میرے سینے پر
دلِ مردہ میں پھر سے زندگی محسوس ہوتی ہے
مجھے ڈسنے لگی ہے پھر سے شامِ غم کی تنہائی
مجھے پھر زندگی میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے”
“بات جو تم کو ہے کرنی وہ کرو پیار کے ساتھ
فیصلے دل کے تو ہوتے نہیں تلوار کے ساتھ”
ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری میں جذبہ صداقت ، فکری رفعت اور زبان کی لطافت یکجا دکھائی دیتی ہے۔ شورشِ جنوں ان کے فکری ارتقا اور داخلی کرب کی ایک خوبصورت دستاویز ہے ان سے ملاقاتیں محض ایک یاد نہیں بلکہ ایک درس ہے کہ عظمت علم سے نہیں،
انکساری سے پہچانی جاتی ہے – ہر بار ان سے ملاقات کی بعد واپسی پر ِاسیقین کے ساتھ باہر نکلتی جیسے کسی درگاہ سے کوئی معتقد نکلتا ہے۔
اس گفتگو میں ڈاکٹر صاحب کی پچھلی کتابوں کا ذکر نہ کیا جائے تو مضمون مکمل نہیں ہوگا گوکہ یہ لکھنا کوزے میں سمندر کو بند کرنے کے مترادف ہوگا مگر میں بطور ایک معتقداختصار کے ساتھ ان کتابوں پر کچھ رائے دینا ضروری سمجھتی ہوں۔۔۔
“روزنِ دیوارِ زنداں” یہ کتاب خودی، شعور اور مزاحمت کا استعارہ ہے یہ کتاب بظاہر اقبالی فکر کی تشریح معلوم ہوتی ہے، مگر دراصل یہ انسان کے اندر قید شعور کو آزاد کرنے کی ایک فکری جستجو ہے ڈاکٹر جعفری نے اس میں خودی، روحانیت، ارادے، اور انسان کی باطنی طاقت کو مرکزی حیثیت دی ہے یہاں دیوارِ زنداں انسان کے اندر کے جمود اور خوف کی علامت ہے،
جبکہ روزن وہ کرن ہے جو علم، یقین اور کردار سے پھوٹتی ہے اقبالی فکر کو عصری معنویت دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ فکر جب قید ہو جائے تو انسان محض جسم رہ جاتا ہے یہ کتاب نہ صرف فکری حریت کا پیغام ہے بلکہ ادب کے اخلاقی و روحانی کردار پر بھی روشنی ڈالتی ہے کتاب کے دیگر مرکزی موضوعات میں خودی، آزادی، روحِ عصر، ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت، علم و عرفان نظر آتا ہے یہ کتاب فکری شاعری کا ایسا مجموعہ جو فلسفے کو جذبے میں ڈھالتا ہے، اور اقبال سے متاثر ہو کر بھی اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے
“چراغِ افکار” روشنیِ قلم اور احساسِ انسانیت کی علمبردار ہے یہ کتاب دراصل ڈاکٹر جعفری کے مضامین اور فکری تحریروں پر مشتمل ہے، جن میں انہوں نے عصرِ حاضر کی فکری زوال پذیری پر بات کی ہے۔چراغِ افکار ایک علامت ہے روشنی کی، امید کی، اور اس دانش کی جو قلم سے پیدا ہوتی ہے کتاب میں وہ مذہب، سیاست، سماج، اور انسانی اقدار کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہیں ان کے نزدیک علم و ادب کا مقصد صرف اظہار نہیں، بلکہ انسان کو اس کی اصل پہچان دینا ہے اس کے مرکزی موضوعات میں
انسان دوستی، فکری احیا، آزادیِ رائے، علم کی اخلاقیات، تہذیبی زوال جگہ جگہ نظر آتا ہے
یہ کتاب نثر میں وہی تاثر پیدا کرتی ہے جو ان کی شاعری میں جذبے سے پیدا ہوتا ہے۔ فکری نثر کا ایک روشن نمونہ ہے
“ادبی تبصرے” ادب، فکر اور تنقید کا امتزاج ہے میرے لیئے قابلِ فخر یہ بات کہ اس میں میرا ذکر بھی شامل ہیادبی تبصرے دراصل ایک تنقیدی اور تجزیاتی مجموعہ ہے جس میں ڈاکٹر جعفری نے اردو ادب کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے یہ محض تبصرے نہیں بلکہ ادب کی روح پر مکالمہ ہیں انہوں نے کلاسیکی شاعری، جدید رجحانات، ترقی پسند فکر، اور معاصر ادیبوں کے کام کو غیر جانب دارانہ مگر بصیرت آمیز انداز میں پرکھا ہے کتاب میں کئی مقامات پر وہ ادب کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک ادب جب تک انسان کی آواز نہیں بنے گا، وہ محض الفاظ کی مشق رہے گا۔
یہ کتاب اردو تنقید میں ایک متوازن اور انسان دوست زاویہ پیش کرتی ہے، جو جذبات اور عقل کے درمیان پل بناتی ہے۔
۔”The Ideals of Bhutto” سیاست، اخلاق اور تاریخ کا مکالمہ ہے یہ کتاب انگریزی زبان میں ہے اور اس میں ڈاکٹر جعفری نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی، فکری اور نظریاتی پہلوں کو گہرائی سے جانچا ہے وہ بھٹو کو محض سیاست دان نہیں بلکہ ایک فکری علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر جو عوامی شعور اور سماجی انصاف کی بات کرتا ہے کتاب میں بھٹو کی پالیسیوں، اسلام اور سوشلسٹ نظریات کے امتزاج، جمہوریت کی تشکیل، اور عالمی سیاست میں ان کے کردار پر مدلل گفتگو کی گئی ہے یہ کتاب سیاسی تھیوری اور ادبی اظہار کا حسین امتزاج ہے، جہاں ایک شاعر مفکر بن کر تاریخ سے مکالمہ کرتا ہے ڈاکٹر مقصود جعفری کا فکری سرمایہ ادب، سیاست اور روحانیت کے سنگم پر کھڑا ہے ان کی ہر تصنیف دراصل انسانی شعور کے ارتقا کی دستاویز ہے خواہ وہ نظم میں ہو، نثر میں یا تنقید میں۔
انہوں نے قلم کو احتجاج بھی بنایا، دعا بھی روشنی بھی، آئینہ بھی،میں نے ان سے ملاقات اور تصنیفات سے ان کی شخصیت کا ماخذ تیار کیا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ڈاکٹر مقصود جعفری کی شخصیت علم و عمل، فکر و احساس، اور فن و اخلاق کا حسین امتزاج ہے،ان کا وقار عالمِ فکر کی گہرائی میں، اور انکساری انسانیت کے نرم لمس میں پوشیدہ ہے،ان کی تحریروں میں جہاں دل کی آگ ہے وہاں عقل کی روشنی بھی ہے۔وہ محض شاعر نہیں، بلکہ زمانے کے شعور کے نقیب ہیں جنہوں نے لفظ کو احتجاج، دعا، فلسفہ اور محبت سب کچھ بنا دیا۔ڈاکٹر جعفری کا فن ان کے کردار کی طرح سنجیدہ، منکسرالمزاج اور صداقت پر مبنی ہے۔وہ اس عہد کے ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنہوں نے ادب کو انسانیت کی خدمت میں وقف کر دیا ان کی فکر آج بھی یہ پیغام دیتی ہے کہ قلم جب سچائی کے ہاتھ میں ہو، تو وہ چراغ بھی بن جاتا ہے اور عہد کا ضمیر بھی۔
٭٭٭















