ظہران ممدانی کی جیت مبارک !!!

0
40
شبیر گُل

نیویارک سٹی دنیا کا معروف شہرہے، جس کی آبادی تقریبا ایک کڑوڑہے، نیویارک سٹی کی یہ خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے گڑھ مین ہیٹن میں روازانہ پینتیس لاکھ لوگ روزانہ ٹرینوں، بسوں ، کاروں اور بذریعہ او برزبسلسلہ روزگار آتے ھیں۔ اسکے پانچ بوروز مین ہیٹن، برانکس، کوئین،بروکلین،اور سٹیٹن آئیلنڈ ھیں۔ نیویارک کے مئیر الیکشن میں ظہران ممدانی ساتھ ایشا کے پہلے منتخب مئیر ھیں۔ ممدانی نے نیویارک کی تاریخ کا ایک منفرد الیکشن لڑاجس میں ممدانی نے نوجوان ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پروگریسو ممدانی چونتیس سال کے نوجوان ھیں۔ جو چائلڈ کیئر۔ فری بس، افوریڈیبل ہاس، رینٹ کنٹرول ،سمال بزنس کو ٹیکس ریلیف چاہتے ھیں۔ لوکل بزنس بڑھانے کی بات کرتے ھیں، ہر بورو میں سستے اور افورڈ ایبل سپر سٹورز کی بات کرتے ھیں جہاں عام آدمی کو سستی گراسری فراہم ھوسکے، ممدانی پرو فلسطین ھیں۔اسرائیلی بربریت کے سخت خلاف ھیں، نیتن یاہو کے شدید ناقد ھیں ، موجودہ الیکشن نے یوتھ میں ایک تحریک پیدا کی ہے جس سے روایتی سیاست میں بھونچال آگیا ھے۔ پرائمری الیکشن میں سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست کے بعد نیویارک کی سیاست تبدیل ھوتی نظر آرہی ھے۔یہودیوں نے ممدانی کو ہرانے کے لئے ملینز آف ڈالرز کی فنڈنگ کی۔ لیکن انکی ساری فنڈنگ بیکار گئی۔ ممدانی پر ہر طرح کے منفی حملے ھوئے ۔ لیکن ظہران ممدانی نے اپنی کمپین انتہائی جرآت سے چلائی۔ اسکی مہم میں سینٹر برنی سینڈرز، سابق کانگرس مین جمال بو مین۔ کانگرس ویمن الیگزینڈرا اوکازیو کورٹیس نے کھل کر حمایت کی۔ سابق صدر بارک اوباما نے الیکشن سے چند روز پہلے ممدانی کو جیت کی ایڈوانس مبارکباد دیھے۔ اس الیکشن پر عالمی میڈیا کی نظریں اور دلچسپی رہی۔ اسے مسلمان ھونے کا طعنہ دیا جاتا رہا۔ منفی رنگ دینے کی کوششیں کی گئیں۔ امریکی رویات کا مخالف قرار دیا گیا۔ امریکی نظام کا مخالف گردانا گیا۔ مختلف ناموں سے پکارا گیا۔ اسکی جیت کو 9/11 سے تشبیہ دی گئی۔ اسکی جیت کو امریکی ہسٹری کا بلیک ڈے کہا گیا۔ لیکن ظہران ممدانی نے تمام نیگیٹو پراپگنڈے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ممدانی کی سپیکنگ پاور بیمثال ہے۔ ڈیبیٹ میں اسکا مقابلہ ناممکن ھے۔ مضبوط عصاب کا نوجوان ھے۔ یہ امریکی ہسٹری میں واحد امیدوار تھا جسے ایک لاکھ سے زائد رضاکاروں کی حمایت حاصل تھی۔ نیویارک سٹی کی شاید کی کوئی بڑی مسجد یا چرچ ھو جس کا ممدانی نے دورہ نہ کیا ھو۔ اس کی الیکشن کمپین ایک سال پر محیط تھی ۔پوری الیکشن کمپین بہت منفرد رہی جس میں مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس کو فوکس کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج ممدانی نیویارک کا مئیر بن چکا ھے۔ ممدانی کے بروکلین میں معروف اسلامک سینٹر کے دورہ پر معروف امام سراج وہاج کا کہنا تھا کہ ممدانی نے تاریخ رقم کی ھے۔ بہت مضبوط اعصاب کا مالک ھے۔ یہ نوجوان آنے والے کل امریکہ کا صدر بھی بن سکتا ھے۔ اس الیکشن کی یہ خوبصورتی رہی کہ جو نوجوان ووٹ نہیں ڈالتے تبے اس الیکشن میں ممدانی کے دست و بازو تھے۔ ہر رنگ و نسل کے لوگ ممدانی کے ساتھ تھے جس کی وجہ سے جیت انکے حصہ میں آئی۔ پرانے اور روایتی سیاستدان ممدانی کی جیت سے ناخوش ھیں۔ کبھی اسے یہودیوں کا مخالف، کبھی امریکہ مخالف اور کبھی پولیس مخالف قرار دیا جارہا ھے۔ کہا جا رہا ھے کہ اس کے آنے سے نیویارک میں جرائم بڑھ جائینگے۔ اکانومی کو برباد کردے گا۔ خصوصا کارپوریٹ بزنس۔ بڑے لینڈ لارڈ۔ اسکے مخالفین ھیں۔ممدانی کا کہنا ھے کہ نیتن یاہو عار کریمنل ھے جس نے فلسطین میں قتل عام کیا ھے ۔ نریندرا مودی نے گجرات میں قتل عام کیا ھے۔ انکی نیویارک آمد پر انہیں گرفتار کرونگا۔ ایسا جرآتمند اور نڈر نوجوان نیویارک کی تاریخ میں نہیں دیکھا جو ڈائنسٹوں کے خلاف کھل کر بات کرتا ھو۔صدر ٹرمپ نے ممدانی کی جیت کو سیاہ دن قرار دیا تھا۔ اور نیویارک کے فنڈز روکنے کی دھمکی دی تھی۔ ریپلیکنز نے کہا تھا کہ اس کی شہریت کینسل کی جائے۔ اسے ملک بدر کیا جائے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اسکی جیت امریکہ میں دوسرا نان الیون ھوگا۔ قارئین ! یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ھوں کہ کیوں یہودی اور روایتی سیاستدان ممدانی کی جیت کو سیاہ دن قرار دے رہے ھیں۔؟
کیا کسی امریکی مسلمان کو الیکشن لڑنے کی آزادی نہیں ھونی چاہئے۔ ؟
مسلمان کو دہشتگرد ، امریکی ویلیوز کے خلاف کیوں قرار دیا جاتا ھے؟۔ حالنکہ مسلمان امریکن آئین اور امریکی ویلیوز کا اتنا ہی احترام کرتا ھے جتنا کرسچن یا جیوش امریکن ۔
یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ھوں کہ مسلم امریکن کی جیت پر اتنا واویلا کیوں ہے۔؟ ہمیں یہ سوچنا ھوگا کہ مسلمانوں کے خلاف منفی تاثر۔ نیگیٹو پراپیگنڈہ کا توڑ کیسے کیا جائے۔ ظہران ممدانی کاہسپانک، افریقن،ایفرو امریکن ،ایشن ،عرب اور ایمگرنٹ کمیونٹی نے جس طرح کھل کر ساتھ دیا،ماضی میں اسکی نظیر نہیں ملتی ۔ ظہران ممدانی نیویارک کی تاریخ کا سب سے مصروف امیدوار تھا جسے لوئر کلاس، مڈل کلاس، سمال بزنس کمیونٹی کی حمایت حاصل تھی۔ نیویارک کی ہسٹری میں پہلی بار دیکھا گیا ھے کہ early voting میں نوجوان ووٹر بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا۔ایشین کمیونٹی خصوصا پاکستانی، انڈین، بنگلہ کمیونٹی نے اپنے اپنے ووٹرز کو ممدانی کے لئے متحرک بھی کیا ۔ فنڈز نھی دئیے اور کھل کر ساتھ دیا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ھے کہ ممدانی کی جیت امریکہ کی سیاسی تاریخ بدل دے گی۔سوشلسٹ پروگریسو کی اس جیت سے دوسری اسٹیٹس میں مسلم امیدواروں کے لئے تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ جن اسٹیٹس میں ائمگرینٹ کمئونٹیز کی بڑی آبادی ھے۔ شکاگو، ہیوسٹن۔کیلفونیا، نیو جرسی، فلویریڈا، وغیرہ آئندہ الیکشنز بالکل مختلف نظر آئینگے۔ ایشین اور مسلم کمیونٹی کو نوجوان پروگریسو مئیر ظہران ممدانی کی جیت مبارک۔
اللہ بارک سے دعا ھے کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی خفاظت فرمائے ۔ آمین
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here