ظہران ممدانی کو جتوانے میں صدر ٹرمپ کا شکریہ! !!

0
42
کامل احمر

اس سے پہلے ہم ممدانی کے میئر بننے کی پیش گوئی کر رہے تھے وہ میئر بن گئے اور ممدانی نے تاریخ لکھ دی ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اب امریکہ میں سیاست کا راستہ کیا بنے گا لیکن یہ طے تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے امریکہ غلط سیاست کا شکار بن رہا ہے، اندرونی اور بیرونی طور پر نیچے آچکا ہے۔ نیویارک چونکہ سیاست اور معیشت کا مرکز ہے ،اس لحاظ سے نیویارک کی اہمیت کہیں زیادہ ہے کہ باہر سے نئے امیگزنٹ اور دوسری ریاستوں کے لوگ نیویارک میں آبستے ہیں ہر چند کہ نیویارک سب سے مہنگا شہر ہے یہاں ہم نیویارک سٹی کی بات کر رہے ہیں جو٥ باروز سے مل کر بنا ہے۔ جن میں کوئنز، بروکیلن، برانکس اور خرنبرہ اسٹیٹسن آئیلنڈ کے علاوہ خود مین ہٹن سب سے مہنگا بارو شامل ہے اور1972 سے اب تک اس شہر کے جو میئر رہے ہیں اُن کے نام یہ ہیں جان لنڈسے جو سب سے کارآمد میئر تھے اور جنہیں برف باری کے نام پر سیاست کا شکار بنوا کر ہرایا گیا آنے والے ابراہیم بیم تھے اس کے بعد ایڈورڈ کوچ آئے۔ جب مالی طور پر ملک گرا ہوا تھا۔ اُسی زمانے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی مدد سے ایک بند پڑا ہوٹل کموڈور شہر سے قرض لے کر نیا کروا دیا۔ پھر ڈیوڈ ڈنکن کو چنا گیا۔ حالات بدستور خراب رہے اور جو لیانی کو لایا گیا جس نے کئی بڑے اقدام کئے مافیا کا نیویارک سے قبضہ ختم کرایا اور ریل اسٹیٹ کی طرف دھیان دیا۔ اور مکانوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں، ٹائمز اسکوائر کو صاف کرایا کہ باہر سے لوگ آئیں۔ نئے نئے بزنس آنے لگے۔ اُن کے بعد بلومبرگ جو سیاست دان نہیں تھے میئر بن بیٹھے انہوں نے بشیر کو ناقابل رہائش بنا دیا۔ شہر کے گودام بدل کر اپارٹمنٹ بلڈنگ بنائی گئیں اور کوئنز، بروکلین میں مکانات مہنگے ہوتے چلے گئے۔ ڈی بلاسیو میئر آئے تو بتدریج مہنگائی بھتی رہی۔ اور آخر میں پولیس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایرک آدم میئر بن گئے جن کا کوئی تجربہ نہیں تھا انکے چاہنے والوں میں نمبر ایک افریکن امریکن اور ہسپانوی تھے جنہیں ہمیشہ سٹی کی طرف سے مراعات چاہئے ہوتی ہیں اور آج جب کہ ممدانی میئر بن چکے ہیں پورے امریکہ میں سوچا جارہا ہے کہ کیا دونوں پارٹیاں جن میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ میں ملی بھگت سے امریکہ کی معیشت کو تباہ کرچکی ہیں ایسا کرنے میں بیرونی ممالک کو آنکھیں بند کرکے ڈالر بھیجے جارہے ہیں۔ اسرائیل، یوکرائن، مصر، ہر سال کھربوں ڈالر بے چوں چرالے جاتے ہیں اور خود امریکی شہری اپنی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتے۔ دونوں پارٹیوں پرAIPA کا قبضہ ہے ان کے خلاف کوئی سینیٹر یا کانگریس کا ممبر نہیں بول سکتا اگر اُسے سیاست میں رہنا ہے۔
ایسے میں ایک 34 سال نوجوان ممدانی ایک سال پہلے تن تنہا ہاتھ میں فلائر لے کرنکلتا ہے اور صرف ایک سال بعد بڑے حوصلے، اور ہمت سے میئر بن جاتا ہے۔ لیکن اُن کی کامیابی میں جن کا ہاتھ ہے اُن میں صدر ٹرمپ کا بڑا ہاتھ ہے جن کی مداخلت سے ممدانی میئر بنا ہے آپ کہیں گے وہ کیسے تو تجزیہ یوں ہے کہ سب سے پہلے صدر صاحب نے ایرک آدم کو بٹھا دیا کہ ممدانی کے بعد ایرک آدم تھا اور تیسرے نمبر پر اینڈریو کیومو ایسا کرنے سے افریقی امریکن ووٹ اپنا راستہ بنانے کے لئے آزاد تھے اور صدر ٹرمپ کی اپیل پر کہ کیوموکو ووٹ دین پر کسی نے بعض ماویہ میں وہ ووٹ کیوموکی جگہ مممدانی کو دے ڈالے۔ ساتھ ہی کیو موکے لئے بڑھ بڑھ کر باتیں کیں بلومبرگ اور دوسرے لوگوں سے اُن کی مہم میں 17.85 ملین ڈالر دلوائے جس سے معاملہ الٹا ہوگیا ایک اور کیل ٹھوکنا چاہی اعلان کرتے رہے کہ ممدانی کمیونسٹ ہے لوگوں کو اسلامی فوبیا کی طرف لے جانے کی کوشش کی اور عوام جن میں سب شامل تھے چڑ گئے کہ یہ سب ڈھکو سلا حکومت کا ہے وہاں ممدانی کے لئے راستہ صاف ہوگیا میئر بننے کا کیوموجو پہلے سے ہارے ہوئے تھے۔ ان کی ہار میں چار چاند لگ گئے ہمارا دعویٰ ہے کہ صدر ٹرمپ یہ کچھ نہ کرتے خاموش بیٹھے رہتے تو ممدانی کا جیتنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ ممدانی جو ایک بہترین اور ہشاش مقرر ثابت ہوئے نے دن رات ہر جگہ اور ہر کسی سے مل کر اپنا راستہ بنایا سب سے بڑی مدد انہیں ڈیموکریٹ کے برنی سینڈرز نے ممدانی کے لئے ایک پراثر تقریر کی مطلب ممدانی نے ہر طرف سے فائدہ اٹھایا۔ دوستوں اور اپنے نہ چاہنے والوں سے اور جب وہ جیت گئے تو انہوں نے اپنے٣٥ منت کی تقریر میں جزبات میں آکر صدر ٹرمپ کو بھی لتاڑا۔ جو غلط تھا کہ ممدانی کو دشمنی نہیں دوستی اور مل جل کر اپنے کئے وعدوں کو پورا کرنا ہے انہیں زیادہ مشوروں کی ضرورت ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے اور اُن سے ملاقات کا کہتے اور جاکر ملتے اس سے صدر ٹرمپ کی پوزیشن صاف ہوجاتی ان کا یہ جملہ کہ میں جانتا ہوں کہ تم مجھے سن رہے ہو ذرا آواز تیز کر دو ” ذرا جزباتی بات تھی جس سے عام شخص جو صدر ٹرمپ سے چڑا بیٹھا ہے ضرور خوش ہوا ہوگا لیکن ہم نہیں ہم انہیں مشورہ دینگے کہ وہ صدر ٹرمپ سے ملنے کی کوشش کریں اور اُن سے مدد لیں، ابھی وہ الیکشن جیتے ہیں لیکن یاد رہے کہ ”ابھی دلی دور ہے”۔
گورنر ہو چل کو ممدانی کی ضرورت ہے کہ اگلے سال الیکشن میں وہ ہار سکتی ہے کہ ابھی تک انہوں نے ووٹرز کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے مشورہ ہے کہ وہ کار اور گھر کو انشورنس کرنے والی تمام چالباز کارپوریشن کو لٹکائیں مطلب اُن سے پیسے واپس دلوائیں جوان سب نے عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔ گورنر یہ کام باآسانی کرسکتی ہے اگر اُن کے اور جاننے والوں کے مشیر خریدے نہیں گئے ہیں۔ صرف یہ قدم انہیں دوبارہ گورنر بنا سکتا ہے اور وہ صدر ٹرمپ کی پسندیدہ کو جن کانام اسٹیفانک STEFANIK ہے ہراسکتی ہیں یہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگلے سال مڈٹرم الیکشن میں ری پبلکن کی کامیابی درد سری ہے۔ امریکہ میں عوام کو پیش آنے والے مسائل مہنگائی کے علاوہ درپیش ہیں۔ ہزاروں فلائٹس، ایرکنٹرولر کی کمی کی وجہ سے کینسل ہو رہی ہیں آج اعلان کیا گیا ہے۔ کہ ایرکنٹرولر جو چھٹی نہیں لینگے انہیں دس ہزار ڈالر کا بونس ملے گا علاوہ اس کے گورنمنٹ پر جوتالے لگے ہیں اور فیڈرل ملازمین گھر بیٹھے ہیں کی وجہ سے42 ہزار EBT کے امیدواروں کو کھانے پینے کی چیزیں پیش مل رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ کو ایک مشورہ دیگنے کہ باتوں کے علاوہ وہ کچھ کریں ایسا نہ لگے کہ نیتن یاہو کی ہدایت پر چل رہے ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ ملک کا بیڑہ غرق اسرائیل کر رہا ہے۔ ENOUGH IS ENOUGH بہت ہو چکا اب بند کرو یہ دھندہ۔ اور امریکہ کو جینے دو!!۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here