”جمہوریت کی موت”

0
38
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان میں شاید تاریخ ہر چند سال بعد وہی تماشہ نئے نام سے دکھاتی ہے۔ کبھی مارشل لا کے نام پر، کبھی قومی سلامتی کے عنوان سے، اور اب 27ویں آئینی ترمیم کے بہانے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے طاقت ٹینکوں کے ذریعے آتی تھی، اب وہ آئینی شقوں کے ذریعے داخل ہو رہی ہے۔ حکومت لاکھ کوشش کر لے مگر عوامی مفاد کی بجائے یہ ترمیم خالصتا کسی کے ذاتی مفادات کا احاطہ کرتی ہے۔فوج کی بدمعاشی قوت کو شاید آئینی قوت میں بدلا جا رہا ہے۔ فوجی جرنیلوں کی خوشنودی کے لیے کی جانے والی یہ ترامیم انہی جماعتوں کے لیے گڑھا ثابت ہوں گی، جو آج یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ اگر وہ طاقتوروں کے ساتھ کھڑی ہیں تو محفوظ ہیں۔ حالانکہ طاقتور کبھی کسی کے نہیں ہوتے، ماضی میں جنہوں نے ان کے سائے میں سیاست کی، وہی بعد میں ان کے ہاتھوں ذلت کے مقام تک پہنچے۔آج وہی سیاست دان، جو کل تک پارلیمان کی بالادستی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، آج اسی پارلیمان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔وہ پارلیمان جس کو مضبوط کرنے کے وعدے ان سیاست دانوں نے کیے، آج کمزور ترین پارلیمان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عوامی مفاد کے بجائے فوجی جرنیلوں کی قوت کو بڑھانے کی یہ کوشش تاریخ میں ان سیاست دانوں کے گلوں میں جوتوں کا ہار ثابت ہوگی۔اقتدار کی کرسی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے، لیکن طاقت کے کھیل میں شامل سیاست دان یہ حقیقت ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چند ترمیمی شقیں انہیں فوجی حلقوں کی نظروں میں معتبر بنا دیں گی۔ مگر جو آنکھیں کل زلفوں پر فدا تھیں، وہی اگلے دن پھانسی کے تختے پر کھڑی نظر آتی ہیں۔یہ ترمیم بظاہر قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے بتائی جا رہی ہے، مگر اصل میں یہ جمہوری اداروں پر ایک نیا شکنجہ ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی وزیرِاعظم یا منتخب نمائندہ عسکری پالیسیوں پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ یوں پارلیمان کے فیصلے بند کمروں میں بیٹھے چند افراد کے رحم و کرم پر ہوں گے۔تاریخ کے صفحات کھول کر دیکھیں، جب بھی سیاست دانوں نے فوجی طاقت کے سامنے سر جھکایا، جمہوریت نے سانس لینا چھوڑ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک، ہر دور میں یہی کہانی دہرائی گئی۔ آج پھر وہی منظر نامہ تیار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب وردی دکھائی نہیں دے رہی، مگر اس کا سایہ ہر کمرے میں محسوس ہو رہا ہے۔جمہوریت کوئی تحفہ نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد کا نام ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان جدوجہد سے زیادہ مفاہمت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار کی چند کرسیوں کی قیمت آئین کی ایک شق سے زیادہ نہیں۔ یہی سوچ ہر بار جمہوریت کو کمزور اور آمریت کو مضبوط کرتی ہے۔اگر آج 27ویں ترمیم کے ذریعے فوجی کردار کو آئینی تحفظ دے دیا گیا، تو پھر کل کوئی بھی حکومت خودمختار نہیں رہے گی۔ عوامی مینڈیٹ محض دکھاوا بن جائے گا، اور منتخب نمائندے صرف وہی فیصلے کریں گے جو کہیں اور سے لکھ کر دیے جائیں گے۔فوجی جرنیلوں کی خوشنودی کے لیے ہی اگر ترامیم کرنا ضروری رہیں تو یہ ملک 27 ویں ہی نہیں بلکہ 127ویں ترمیم بھی جلد دیکھے گا۔طاقت خوشامد سے نہیں، اصول اور سچائی سے قابو میں آتی ہے، مگر افسوس، ہمارے سیاست دان دونوں سے خالی ہیں، تاریخ دیکھے گئی کہ یہ سب معاف نہیں ہوگا اور پاکستان میں جمہوریت کی موت کا مقدمہ انہی سیاست دانوں پر درج ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here