”نافرمان کی رب سے صلح”

0
42

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا، لوگ پریشان اور بے حال ہو کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ حضرت! دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت باران رحمت نازل فرما دے، حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کے لیے ستر ہزار بنی اسرائیل کے ہمراہ جنگل میں نکل گئے اور بارش کی دعا فرمائی: ”الٰہی! مصعوم بچوں، نیک بوڑھوں اور بے زبان جانوروں کے طفیل ہم پر رحم کر باران رحمت نازل فرما۔ ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے، اس اعتبار سے دعا کے بعد بجائے اُمید بندھنے کے آسمان پہلے سے زیادہ صاف اور آفتاب پہلے سے زیادہ گرم ہوگیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت حیرت ہوئی، پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کیا: یااللہ! اگر تیری بارگاہ میں میری وجاہت ختم ہوگئی ہے تو نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ ۖکے واسطہ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اپنی رحمت متوجہ فرما کر بارش نازل فرما۔ اسی وقت وحی آئی: ”اے موسیٰ! تمہارا مرتبہ ہمارے یہاں بالکل نہیں گھٹا، تم اب بھی ہمارے نزدیک مرتبے والے ہو، مگر بات یہ ہے کہ تمہاری قوم میں ایک ہمارا نافرمان بندہ ہے، جو چالیس سال سے ہمیں ناراض کرتا رہا ہے، جب تک وہ موجود ہے ہم ہرگز ایک قطرہ بارش نہیں برسائیں گے، آپ اعلان کریں، تاکہ مجمع سے وہ نافرمان چلا جائے جس کے سبب بارش کی ہوئی ہے۔ ” حکم پاکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا، تو وہ نافرمان بندہ اپنی جگہ کھڑا رہا، چاروں طرف نظر ڈالی، جب اس کے علاوہ اور کوئی مجمع سے نکلتا نظر نہ آیا تو اُس نے سوچا کہ اگر باہر نکلتا ہوں تو سب کے سامنے رُسوائی ہوتی ہے، اور اگر نہیں نکلتا تو میرے گناہوں کے سبب بارش نہ ہونے سے سب کے لیے پریشانی ہوتی ہے، سوچ کر دل میں توبہ کا فیصلہ کرلیا، پھر چہرے پر پردہ ڈالا اور غفار الذنوب، ستار العیوب سے معافی طلب کی: اے میرے رب کریم! یہ تیرا بندہ، سراپا گندہ، اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ اور طالب تو یہ ہے: یااللہ! میں نے چالیس سال تک تیری نافرمانی کی مگر تو مہلت دیتا رہا، اب تیری طرف توجہ کے ارادے سے متوجہ ہوا ہوں، پس قبول فرما محروم نہ فرما، مایوس نہ فرما، بس پھر کیا تھا، روایت میں آتا ہے کہ ابھی تو دعا اور توبہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ آسمان سے موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو بڑا تعجب ہوا؟ عرض کیا: ”اے اللہ! ابھی تو وہ بندہ مجمع سے باہر نکالا بھی نہیں، پھر یہ بارش کیسے برسی؟ ارشاد ہوا: ”موسیٰ! اس نے توبہ کرلی اور میں نے صلح کرلی تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا یااللہ کون ہے وہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب نافرمان تھا تو میں نے کسی کو نہیں بتایا اور اس پر پردہ ڈالا ،آج جب وہ توبہ کر چکا ہے تو اسے رسوا کیسے کروں؟یہ تو میرا اور اسکا معاملہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here