نیو یارک کے انتخابات کے نتیجے کے بعد، اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ، اسرائیل کی صیہونی ریاست ہے، جس کی حفاظت کیلئے ہر سال کئی بلین ڈالر خرچ کرنا، امریکہ جیسے امیر ملک کی معیشت پر بھی بہت گراں ہے، فلسطینی عوام پر انتہا درجہ کا ظلم، امریکہ کی اخلاقی ساکھ کیلئے بھی بیحد نقصان دہ ہے۔ امریکہ کے فراہم کردہ مہلک ہتھیاروں کے ذریعے، اسرائیلی فوجوں کی جانب سے جنگی جرائم کے مسلسل ارتکاب نے اقوامِ عالم میں سپر پاور کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیاہے۔ امریکہ کی اندرونی سیاست میں صیہونی دولت کی مداخلت نے، دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں کو اتنا کرپٹ کر دیا ہے کہ وہ عام آدمی کے روز مرہ کے مسائل پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ یہاں کی نئی نسلوں کے تیور کافی بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔ رائے عامہ کے سروے تو اس رجحان کی نشاندہی کر ہی رہے تھے لیکن اس ہفتے، ظہران ممدانی کی شاندار فتح نے اس پر مہرِ تصدیق ثابت کردی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں!
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف، امریکہ میں احتجاج کا سلسلہ تو نصف صدی سے جاری ہے۔ بلکہ میں شکاگو کے سٹی ہال کے سامنے، اپنی امریکی زندگی کے جس سب سے پہلے احتجاج میں مجھے شرکت کا موقع ملا تھا وہ اسرائیل کے خلاف جلوس ہی تھا۔ بظاہر تو یہ طویل جدوجہد ہمیں ہمیشہ بے نتیجہ ہی لگتی تھی لیکن غزہ کے معصوم بچوں اور خواتین کی مظلومیت نے امریکی عوام کے دلوں میں بھی اب نرمی پیدا کرنا شروع کردی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں، سینکڑوں چھوٹی بڑی تنظیموں اور ہزاروں کارکنان نے صیہونی ریاست کے خلاف احتجاج کومنظم کیا۔ ان میں سے ایک، نیو یارک کے انتھک اور پرجوش نوجوان ظہران ممدانی بھی تھے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں، ظہران کو دوستوں کا ایک ایسا گروپ مل گیا، جنہوں نے اس کی لیڈرشپ پر مکمل بھروسہ کرکے اسے نیویارک کی سیاست کا ابھرتا ہوا ستارہ بنا دیا۔ ظہران کے دوست بتاتے ہیں کہ اس میں اقبال کے اس شعر میں بیان کی گئی خصوصیات بدرج اتم پائی جاتی ہیں۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
ظہران ممدانی نے امریکہ کا یہ اہم ترین الیکشن شکست سے خوفزدہ ہو کر نہیں بلکہ بڑی ہمت و جرت سے اپنے مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑا۔ مخالف امیدواروں کے ساتھ ہونے والے تینوں مباحثوں کے دوران، ظہران نے اپنی مدلل گفتگو سے انہیں بالکل لاجواب کردیا۔ اس چونتیس سالہ نوجوان کے سامنے اینڈریو کومو جیسا تجربہ کار سیاست دان، بالکل بونا نظر آیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ظہران کو امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی، ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے بڑے سورماں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اسی لئے، اپنی فتح کی تقریر میں اس نے جب صدر ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے Turn Your Volume Up کہا تو مجھے اس کی جرت پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ پچھلے ایک سال کے دوران ظہران نے مخلتف چھوٹے بڑے میڈیا پلیٹ فارمز پر سینکڑوں انٹرویوز دئیے اورگفتگو میں ہمیشہ اپنے بنیادی مقف پر قائم رہے اور مشکل سے مشکل سوال کا جواب بھی انتہائی خندہ پیشانی اور اپنی مخصوص مسکراہٹ سے دیا۔ ظہران ممدانی کے مسکراتے چہرے نے تو اس کے مخالفین کو بالکل پاگل کئے رکھا۔ میرے خیال میں جگر مراد آبادی نے یہ شعر اسی مسلمان نوجوان کیلئے ہی کہا تھا۔
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
متحدہ ہندوستان سے مشرقی افریقہ ہجرت کرنے والے انتہائی مذہبی شیعہ خوجہ خاندان کے ہاں یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہونے والے اس نوجوان کو اس کے والدین سات برس کی عمر میں نیویارک لے آئے تو یہ کنفیوزڈ دیسی بننے کی بجائے ایک روشن خیال سیاست دان بن گیا۔ اس کی شخصیت کی مقناطیسیت دیکھئے کہ میرے جیسا جماعتی جس نے ساری عمر سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے کہ نعرے لگائے اور بھٹو صاحب کے اسلامی سوشلزم کو بھی تسلیم نہیں کیا، اس نے ظہران کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہونے کو بھی نظر انداز کر کے اس کی حمایت کی۔ خود انتہائی سوشلی کنزرویٹو ہونے کے باوجود، ظہران کے لبرلزم کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران، ممدانی صاحب نمازِ کسی مسجد میں ادا کرنے کے بعد ناشتہ کسی ہندو ریسٹورانٹ میں ویجی فوڈ کا کرتے تھے۔ سکھوں کے گردوارے سے ہوتے ہوئے، کبھی کسی کیتھولک اورکبھی کسی پروٹسٹنٹ چرچ میں حا ضری دیتے تھے۔ یہودیوں کے سینیگاگ سے ہوتے ہوئے کسی نہ کسی ہندو مندر میں بھی کچھ وقت گزارتے تھے۔ رکشہ ڈرائیورز، لیبر یونین کے عہدہ دار، ٹیکسی ڈرائیور اور ٹھیلے لگانے والے، اس کی میزبانی کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ وال سٹریٹ پر بزنس لنچ کرنے کے باوجود، شام کی خبروں کے ٹی وی شوز پر بھی حاضری ضروری تھی۔ شام ڈھلتے ہی وہ شہر میں ہونے والے، بنگالی، افریقی، افریقن امریکی، سائوتھ امریکی اور گوروں کے چھوٹے بڑے ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرنے پہنچ جاتے تھے۔ بچے ہوں یا نوجوان ، انکلز ہوں یا آنٹیز، سب ہی ظہران کے دیوانے لگتے تھے۔ رات گئے کسی نہ کسی نائیٹ کلب والوں کوبھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ہر محفل میں ایسے فٹ لگتے تھے کہ جیسے اس کے علاوہ انہیں کچھ اور کرنا آتا ہی نہیں۔ بقولِ اقبال،
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مِرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
ظہران ممدانی کی یہ فتح، فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں ایک انتہائی اہم سنگِ میل ہے۔ دعا ہے کہ ہمارا امریکہ اس مثبت تبدیلی کو قبول کرے اور مسئلہ اسرائیل کو جلد از جلد حل کرے۔
٭٭٭















