”غزہ نے اسرائیل کو کیسے شکست دی”

0
28

غزہ نے اسرائیل کو کیسے شکست دی! طوفانِ اقصیٰ کا اثر اب محض مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہا، اس کی گونج اب نیویارک کی فلک بوس عمارتوں میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ وہی نیویارک جو دنیا بھر کے یہودی سرمایہ داروں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ 80 لاکھ آبادی اور 2.3 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی والا شہر طلسمات!! جو کبھی تل ابیب کی توسیع محسوس ہوتا تھا، آج اسی شہر کا نیا میئر ایک فلسطینی حامی نوجوان ہے، زہران ممدانی! یہ زہران ممدانی کون ہے؟ صرف 34 برس کا ایک امریکی نوجوان، جس کی پیدائش یوگنڈا میں ہوئی، مگر آبا و اجداد کا تعلق بھارت سے ہے۔ ایک تارکِ وطن، جو عام لوگوں کی صف سے اٹھا اور امریکی سیاست کے سب سے مضبوط قلعے میں قدم رکھا۔ فصیل میں شگاف ڈالتے ہوئے اس نے نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑا، وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں یہودی لابی، اسرائیلی حامی میڈیا اور امریکی قدامت پسند طاقتیں پوری شدت سے موجود تھیں۔ اس کے مقابلے میں کون تھا؟ خود ڈونلڈ ٹرمپ، جو روز اس پر حملہ آور رہتا، اسے “یہود دشمن” اور “امریکی اقدار کا مخالف” کہہ کر بدنام کرتا۔ صہیونی لابی APPAC نے اس کے حریف کے لیے 40 ملین ڈالر کی مہم چلائی اور اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد اس کے نام کو ”یہود دشمنوں”کی فہرست میں شامل کر چکا تھایہاں تک کہ اسے قتل کی دھمکیاں دی گئیں لیکن ممدانی نہ جھکا، نہ رکا۔ اس نے بڑے سرمایہ داروں کے عطیات قبول نہیں کیے، نہ ہی کارپوریٹ حمایت لی۔ اس کی پوری انتخابی مہم مزدوروں، نرسوں، ڈرائیوروں اور گھنٹوں کے حساب سے دیہاڑی لگانے والوں کے چندوں سے چل رہی تھی۔ غریب عوام نے اسے اپنا سچا ترجمان سمجھا یہی وہ عوام تھے جو برسوں سے صہیونی نظام کے شکنجے میں پس رہے تھے۔ ٹرمپ نے کھلے عام کہا کہ اگر ممدانی جیت گیا تو میں نیویارک کی فنڈنگ بند کر دوں گامگر ہوا اس کے برعکس۔ تمام تر میڈیا پروپیگنڈا، دولت، دھونس، دھمکیوں اور سازشوں کے باوجود، زہران ممدانی تاریخی اکثریت سے جیت گیا۔ یہ جیت محض ایک انتخابی کامیابی نہیں تھی، بلکہ امریکی سیاسی نظام کے اندر ایک انقلاب کا آغاز تھی۔ زیادہ حیران کن بات یہ کہ ممدانی کی فتح صرف مسلمانوں یا مہاجروں کے ووٹوں سے نہیں ہوئی، بلکہ نیویارک کے ترقی پسند یہودی نوجوانوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق، 44 برس سے کم عمر کے یہودی ووٹروں میں سے 67 فیصد نے ایک ممدانی کو اپنا نمائندہ چنا! انہوں نے صاف کہا کہ وہ اب مزید نیتن یاہو کی پالیسیوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکتے۔ یہ لمحہ تاریخ کا موڑ ہے، بلکہ یوٹرن ہے۔ وہی امریکی معاشرہ، جس میں “اسرائیل مخالف” ہونا سیاسی خود کشی سمجھا جاتا تھا، اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گیا ہے جہاں فلسطین کے حق میں بولنے والا نیویارک کا میئر بن جاتا ہے۔ زہران ممدانی نے اپنی وکٹری سپیچ میں ایک تاریخی جملہ کہا کہ امرا، ان مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے ہیں جو 20 ڈالر فی گھنٹہ کماتے ہیں، تاکہ وہ کبھی ان کے بارے میں نہ سوچیں جو کروڑوں کماتے ہیں۔یہ جملہ صرف طبقاتی جنگ نہیں، بلکہ فکری انقلاب کا اعلان تھا۔ اس نے واضح کر دیا کہ ظلم اور سرمایہ پر مبنی نظام اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور پھر، خطاب کے اختتام پر، اس نے سب کے سامنے عربی زبان میں کہا(نا منم ولیم(میں تم میں سے ہوں اور تمہارے لیے ہوںاس نے براہِ راست ٹرمپ کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے معلوم ہے تم ٹی وی پر مجھے دیکھ رہے ہو، اس لیے آواز ذرا اونچی کر لو تاکہ میری بات صاف سن سکو!یہ جملہ صرف طنز نہیں، بلکہ ایک عہد تھا کہ اب فلسطین کا مقدمہ امریکی زمین پر بھی اُٹھنے لگا ہے اور طوفانِ اقصیٰ کی گونج واشنگٹن کی سیاست میں سنائی دینے لگی ہے۔ زہران ممدانی شاید مذہبی لحاظ سے روایتی مسلمان نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کے عقائد ونظریات بھی ٹھیک نہ ہوں، یہ بھی عین ممکن کہ اس کے نظریات سے ہر کوئی متفق نہ ہو، مگر اس کی کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ صہیونی تسلط کی دیواروں میں پہلی دراڑ پڑ چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب “طاقت کے بیانیے” کی جگہ “حق کے بیانیے” نے جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔ طوفانِ اقصی نے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو چیلنج کیا تھا اور اب اس کے اثرات امریکی ایوانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ دنیا واقعی بدل رہی ہے اور شاید یہ صرف آغاز ہے۔ اور کیوں نہ ہو!! جب حق کے لیے تاریخ کی لازوال قربانی دی جائے خون کے حقیقی دریا بہا دیئے جائیں پیٹ پر واقعی پتھر باندھ کر بھی صبر کا دامن چھوٹنے نہ دیا جائے تو پھر کرشمے ظہور پذیر ہوا کرتے ہیں یہ کرشمہ نہیں تو کیا ہے کہ نیویارک کا میئر وہ نوجوان بن گیا ہے جس نے اسٹوڈنٹ لائف سے سیاست کے ایوانوں تک فلسطینی پرچم تھام رکھا ہے!!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here