امریکہ اس وقت دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں بغیر رنگ ونسل کے ہر قوم کے لوگوں کے لئے برابر کے مواقع ہیں امتیازی سلوک ہر قوم کے ساتھ ابتدائی دنوں میں صرف ہوا لیکن مستقبل میں بہتری آئی یہاں جو کوئی بھی حسب بھی کسی شعبے میں محنت اور لگن سے جدوجہد کرتا ہے اپنا مقام بنا لیتا ہے تمام تر حالات کے باوجود شخص آزادی مذہبی آزادی سیاسی آزادی کا تحفظ کیا جارہا ہے سیاسی طور پر انتظامیہ ہر صورت وہ کام کرتی ہے جو اب کبھی عوام اور امریکہ کے بہترین مفاد میں ہو امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد کم وبیش دو ملین کے قریب ہے اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو یہاں پیدا ہوئے ہیں پاکستانیوں کی کثیر تعداد میں معاشی طور پر بہت ترقی کی اب تقریباً تیسری نسل امریکہ میں آگے بڑھ رہی ہر طریقے سے مضبوط اور مستحکم اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ان پاکستانیوں میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں فلاحی منصوبوں پر اور مالی طور پر پاکستان میں مدد کر رہے ہیں اور یہاں مختلف نان پرافٹ تنظیمں بھی کام کر رہی ہیں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ان نان پرافٹ تنظیموں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے فنڈریزنگ تقریبات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی بڑھ چڑھ فنڈز دیتے ہیں کئی تنظیمیں ایسی ہیں جو حقیقی مضمون میں پاکستان میں تعلیم پر بے روزگاری ختم کرنے پر خوراک پر غربت پر فنڈز لگا رہے ہیں ایسے ہی یہاں واشنگٹن ایریا میں کئی بڑے بڑے اسلامک سینٹرز قائم ہیں جو نوجوانوں کے خواتین سینئر سٹیزینز امریکی سیاست فوڈ سپلائی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور رنگ ونسل اور مذہب کے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں لیکن کچھ تنظیمیں اور لوگ ایسے ہیں جو فنڈز تو اکٹھے کرتے ہیں لیکن اس کا نہ کوئی حساب نہ آڈٹ نہ کوئی تفصیلات منظر عام پر لاتے ہیں۔
مثال کے طور عرض کر رہا ہوں واشنگٹن ایریا میں ایک کاروباری شخصیت ہے اس موقع کی دنیا سے کافی فائدہ اٹھایا ہے آج سے بیس سال قبل پاکستان میں یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے یہاں لوگوں سے فنڈز اکٹھے کئے 55 لاکھ کی کئی ایکڑ اراضی خریدی اور یونیورسٹی کا اعلان کرلیا لوگ انتظار کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں کہ مزید اس یونیورسٹی کا کیا ہوا موصوف نے 55 لاکھ والی اراضی ساڑھے پانچ کروڑ میں بیچ کر معصوم نہیں کیا گیا یہ شخصیت ذاتی اپنے خاندان کے تمام افراد کو لاکھوں ڈالر کے کاروباری کے ساتھ آج بھی مختلف طریقوں سے لوگوں کو چونا لگانے کے چکر میں مصروف اور رواں دواں فنڈز کے آڈٹ کے بارے اسلامک سینٹرز کے جو علما کرام ہیں جب ان کو لوگوں سے فنڈز لینے ہوتے ہیں۔ تو صوفی اور درویش بن کے لوگوں کے پاس جاتے ہیں لوگ دین سے محبت کی وجہ سے کوئی وجہ نہیں پوچھتے اور بے دریغ فنڈز دے دیتے ہیں جو لوگ بھی ان مذہبی رہنمائوں کو فالو کرتے ہیں عقیدت اور محبت کی وجہ سے کوئی سوال نہیں کرتے اگر کوئی فنڈز کے استعمال اور تنظیم کے بانی لاز کے بارے سوال کرے تو ناراضگی کا اظہار کرکے اس شخص کو اپنی ناپسندیدہ لسٹ میں شامل کردیتے ہیں۔ باقی لاز میں کئی لوگوں نے اپنی فیملی کے اراکین کو شامل کیا ہے اور کئی رہنمائوں نے تین چار نہایت شریف لوگ شامل کئے ہوئے ہیں ان مصروفیات کا مقصد یہ ہے جو بھی ادارہ یا تنظیم فنڈز اکٹھے کرتے ہیں یہ ہم لوگوں کا کام ہے ان سے سوال کریں جو گزشتہ فنڈز میں ان کا استعمال کہاں ہوا اور کہاں کہاں خرچ کئے گئے ان کا آڈٹ رپورٹ ٹائع کرنے کی بھی گزارش کریں کہ اگر کوئی تنظیم یا ادارہ اگر ایک لاکھ ڈالر فنڈز اکٹھے کئے ان میں تقریب کے اخراجات کتنے ہیں۔ تنخواہیں کتنی ہیں جو یہ ماقمی اور دوسرے ممالک کو شو کرتے ہیں وہ اخراجات اپنی جیب سے لگاتے ہیں یا فنڈز میں سے لیتے ہیں۔ کئی تنظیمیں لاکھوں ڈالرز صرف تقریبات پر لگاتے ہیں جو فائیو سٹار ہوٹلز میں رونما ہوتی ہیں ان کے اخراجات فنڈز میں دیئے جاتے ہیں یا تنظیم اپنی جیب سے دے رہے ہیں اس تحریر سے کسی کو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی ایک کو گزارش ہے یہ پورے امدادی سسٹم سے سوال ہے کہ جو بھی فنڈز اکٹھے ہوتے ہیں ان کی تفصیلات ویڈیوز اور تحریر کسی صورت میں فراہم کرنے کی ضرورت ہے اس موقع کی دنیا میں جس قدر رزق حلال موجود ہے اور ہر کام کرنے کی اجازت ہے ہمیں اس ملک امریکہ کی مزید ترقی خوشحالی میں اپنا حصہ اور کردار زیادہ بہتر ادا کرنے کی ضرورت ہے پاکستانی امدادی کاموں اور فلاحی منصوبوں کے ساتھ امریکی جمہوریت ،سیاسی سسٹم ،ہیلتھ کیئر، تعلیم ، مذہبی رواداری ،خوراک کی بہتری ،لاء اینڈ آرڈر اور دیگر معاملات بھی پاکستان میں پہچاننے کی ضرورت ہے، عرض یہی ہے کہ چیرٹی ہے یا چند لوگ کاروبار کا ذریعہ ہیں۔
٭٭٭٭٭













