اُردن کے شاہ عبداللہ دوم ابن الحسین کا حالیہ دورہ پاکستان محض ایک سرکاری ملاقات نہیں بلکہ دو ایسے ممالک کے درمیان مشترکہ سفارتی، اخلاقی اور سٹریٹجک اقدار کی تجدید ہے جن کے درمیان نہ صرف دیرینہ مذہبی اور تہذیبی رشتے موجود ہیں بلکہ خطے میں امن، انصاف اور انسانی وقار کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ایک تاریخ بھی پائی جاتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گرمجوش استقبال، گارڈ آف آنر اور اعلیٰ سطحی مذاکرات نے اس دورے کو محض ایک رسمی مرحلہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے مشرقِ وسطی اور جنوبی ایشیا کے پیچیدہ حالات میں ایک اہم علامت بنا دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف اور شاہ عبداللہ میں ملاقات کے دوران غزہ کی تباہ کن صورتحال اور فلسطینی عوام کے خلاف جاری مظالم زیر گفتگو رہے۔ دونوں ممالک نے واضح اور دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی پر کسی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ اصولی موقف دراصل اس تاریخی حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے تمام منصوبے خطے میں مزید عدم استحکام اور بدامنی کو جنم دیں گے۔ شاہ عبداللہ دوم اور وزیراعظم شہباز شریف نے ان خطرات کو نہایت سنجیدگی سے اُجاگر کیا اور سفارتی محاذ پر ان کوششوں کو مربوط بنانے کا فیصلہ کیا جو غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سرگرم آٹھ ممالک کی مشترکہ کوششوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان اور اردن کے درمیان بڑھتی ہوئی پالیسی ہم آہنگی اور عالمی سفارت کاری میں مشترکہ کردار کا غماز ہے۔ اس تناظر میں حالیہ ملاقات کو محض سفارتی تبادلہ خیال نہیں بلکہ خطے کے بحران کے دوران ایک مشترکہ اخلاقی قیادت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں دونوں ممالک مظلوم فلسطینی عوام کے لیے دنیا کی رائے کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔فلسطین کے مسئلے سے آگے بڑھ کر یہ ملاقات پاک اردن تعلقات کے مستقبل کے راستے بھی کھولتی ہے۔ اردن ایک مستحکم، معتدل اور پالیسی کے اعتبار سے واضح خلیجی ملک ہے جبکہ پاکستان دفاعی اور انسانی وسائل کے میدان میں دیرینہ شراکت داری رکھتا ہے۔ ملاقات میں اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک پرانے سفارتی نعروں سے آگے بڑھ کر عملا ایسے راستے تلاش کرنا چاہتے ہیں جن سے ان کی آنے والی نسلیں مستفید ہوں۔ پاکستان، جسے اپنی معیشت کی بحالی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مضبوط شراکت داروں کی ضرورت ہے، اردن کے ساتھ اس تعاون کو خطے کی نئی اقتصادی حرکیات کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ دوسری جانب اردن جنوبی ایشیا میں قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر پاکستان کو دیکھتا ہے جو اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور دفاعی تجربے کے باعث علاقائی روابط میں مضبوط کردار ادا کر سکتا ہے۔دفاعی شعبہ ہمیشہ سے پاک اردن تعلقات کا بنیادی ستون رہا ہے۔ تربیتی پروگرام، انسٹرکٹرز کا تبادلہ، اسلحہ سازی اور انسداد دہشت گردی کے میدان میں تعاون وہ عناصر ہیں جنہوں نے دہائیوں سے دونوں ممالک کو قریب رکھا ہوا ہے۔ اس دورے میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کا عزم دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عالمی سکیورٹی کے بدلتے ہوئے ماحول میں علاقائی دفاعی شراکت داریاں اب محض عسکری معاہدے نہیں رہیں بلکہ تکنیکی تبادلوں، مشترکہ تحقیق اور سکیورٹی ٹیکنالوجی کے اشتراک تک پھیل چکی ہیں۔ پاکستان اور اردن اس ضمن میں نئے مواقع تلاش کر سکتے ہیں، خصوصا سراغ رسانی، بارڈر مینجمنٹ اور آلاتِ دفاع کی مشترکہ تیاری جیسے شعبوں میں۔م پاکستان کے لیے اردن نہ صرف مشرقِ وسطی کا ایک مستحکم دروازہ ہے بلکہ یورپ، مشرقِ وسطی اور افریقہ کو ملانے والے سفارتی و تجارتی راستوں تک رسائی کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ دوسری طرف پاکستان، اردن کے لیے نہ صرف ایک بڑی افرادی قوت کا مستند ذریعہ ہے بلکہ زرعی مصنوعات، ٹیکسٹائل، ادویات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بااعتماد تجارتی شراکت دار بھی بن سکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک باہمی تجارت میں رکاوٹوں کو کم کریں اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں مشترکہ پراجیکٹس کی طرف بڑھیں تو اس تعاون کے فوائد معاشی استحکام سے کہیں وسیع ہو سکتے ہیں۔ اس دورے نے عالمی اور علاقائی سطح پر ایک اور اہم پیغام دیاہے کہ پاکستان اور اردن جیسے ممالک نہ تو بڑے عسکری بلاکس کا بوجھ اٹھانے کے لیے مجبور ہیں اور نہ ہی وہ کسی عالمی طاقت کے دباو کے تحت خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرتے ہیں۔ غزہ کے بارے میں ان کا واضح، انسان دوست اور اصولی موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ درمیانے درجے کے ممالک بھی اگر اپنی سفارت کاری کو مربوط اور منظم رکھیں تو عالمی ضمیر پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح شاہ عبداللہ دوم کے دورے نے یہ واضح کیا کہ اسلام آباد، مشرقِ وسطی کی سیاست میں ایک توازن آور اور قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے۔شاہ عبداللہ دوم کے دورے کی گرمجوشی، دونوں رہنماوں کی گفتگو میں موجود سنجیدگی اور مشترکہ اہداف کے اعلان کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور اردن نہ صرف ایک دوسرے کے سفارتی ترجمان بن سکتے ہیں بلکہ اقتصادی و تکنیکی ترقی کے لیے حقیقی پارٹنرشپ بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ دورہ مستقبل میں ایسے عملی نتائج پیدا کر سکتا ہے جو صرف کاغذی معاہدوں تک محدود نہ ہوں بلکہ دونوں ممالک کی معیشت، سفارت کاری اور خطے میں امن کے لیے ٹھوس شکل اختیار کریں۔ یہی وہ سمت ہے جس میں آج کی دنیا دوطرفہ تعلقات کو پرکھتی ہے۔ پاک اردن تعلقات کا یہ نیا باب اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ اصولی موقف، باہمی اعتماد، اور مشترکہ اہداف ہمیشہ دیرپا شراکت داری کی بنیاد بنتے ہیں۔
٭٭٭
















