درحقیقت آئین کسی بھی ریاست کی اصل بنیاد ہوتا ہے، یہ عوام کی منشا، حقوق اور ریاستی اداروں کے اختیارات کا توازن قائم رکھنے والی واحد دستاویز ہے۔ دنیا کے باشعور ممالک میں آئین کا مقام اتنا بلند ہے کہ کوئی شخص، کوئی جماعت اور کوئی ادارہ اسے ذاتی مفاد کے لیے چیلنج کرنے کی جرات نہیں کر پاتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آئین اپنی اصل روح سے مسلسل محروم رہا ہے یہاں آئین عوام کی خواہشات کا نہیں بلکہ طاقتور حلقوں کے مفاد کا تابع بنا دیا گیا ہے۔پاکستان کی آئینی تاریخ اس حقیقت پر مہر ثبت کرتی ہے کہ ماضی میں کی جانے والی بیشتر ترامیم کسی ایک طبقے، فرد یا ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے کی گئیں۔ کبھی پارلیمان کو کمزور کیا گیا، کبھی جمہوری حکومتوں کو محدود کیا گیا، کبھی عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہوئی، اور کبھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کردار کو آئینی حدود سے بڑھا کر پیش کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئین تو موجود ہے مگر اس کی بالادستی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی۔مگر دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ جہاں عوام باشعور ہوں اور جمہوریت مضبوط ہو، وہاں آئین کو ذاتی فائدے کے لیے بدلنے کی کوششیں شدید ردِعمل کا شکار ہو جاتی ہیں چند اہم مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔امریکہ میں واٹرگیٹ اسکینڈل کی مثال سب سے نمایاں ہے۔ صدر رچرڈ نکسن نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کیا تو میڈیا، عوام اور عدلیہ نے طاقتور ترین شخصیت کو بھی نہ بخشا۔ شدید عوامی دبا اور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں نکسن کو استعفی دینا پڑا۔ یہاں آئین اور قانون اتنا مضبوط تھا کہ کوئی بھی شخص اس سے بالاتر نہ ہو سکا۔برطانیہ میں 2019 کے دوران بورس جانسن نے بریگزٹ کے معاملات میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی کوشش کی مگر برطانوی عوام، میڈیا اور عدالت نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا، سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا کہ حکومت کا یہ فیصلہ قانون اور جمہوریت کے خلاف ہے، یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ برطانیہ میں آئین اور پارلیمان کی بالادستی ذاتی خواہش کے تابع نہیں۔یورپ میں ہنگری اور پولینڈ نے جب عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے اور حکومت کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی تو یورپی یونین، عالمی عدالتوں اور عوامی تحریکوں نے بھرپور مزاحمت کی۔ ان ممالک کو اپنے کئی اقدامات واپس لینے پڑے۔ یورپ میں واضح اصول ہے: آئین ذاتی مفاد کے لیے نہیں بدلا جا سکتا۔سری لنکا میں راجہ پکسے کی 18ویں ترمیم نے صدر کے اختیارات خطرناک حد تک بڑھا دیے تھے، مگر سول سوسائٹی، وکلا اور میڈیا کے مسلسل دبا نے آنے والی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس ترمیم کو ختم کرے۔ عوامی طاقت نے آئین کو ذاتی مفاد کے چنگل سے نکال لیا۔یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ جہاں عوام بیدار ہوں اور ادارے آئین کے تابع ہوں، وہاں آئین کسی فرد، ادارے یا حلقے کی خواہش سے بلند مقام رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان میں سوال آج بھی وہی ہے: کیا کبھی یہاں آئین واقعی مقدم ہوگا؟پاکستان کو مضبوط بنانے کا راستہ صرف ایک ہے: آئین کی حقیقی بالادستی۔ ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں، پارلیمان بااختیار ہو، عدلیہ آزاد ہو اور عوام کی منشا کو اصل طاقت کا سرچشمہ سمجھا جائے۔ جب تک طاقتور طبقات آئین کے تابع نہیں ہوں گے، تب تک آئینی ترامیم محض ایک مخصوص طبقے کی خواہشات کا دستاویز ہی رہیں گی۔پاکستان کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جب آئین کتاب میں نہیں بلکہ عملی زندگی میں مقدم ہو، اور فیصلے طاقتور حلقوں کے نہیں، آئین کے مطابق ہوں۔ ورنہ سوال ہمیشہ یہی رہے گا: کیا اس ملک میں کبھی آئین طاقتور ہوگا، یا طاقتور ہی ہمیشہ آئین سے بلند رہیں گے اور قتل آئین کا سلسلہ جاری رہے گا۔
٭٭٭












