امام زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے امام باقر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا بیٹا! چار آدمیوں کے پاس نہ رہنا، راستہ چلتے ہوئے ان کے ساتھ تھوڑی دیر کیلئے بھی نہ چلنا، کہنے لگے کہ میں بڑا حیران ہوں کہ وہ اتنے خطرناک ہیں! پوچھا کہ وہ کون سے آدمی ہیں؟ فرمایا ایک بخیل آدمی اس سے کبھی دوستی نہ کرنا اس لئے کہ وہ تجھے ایسے وقت میں دھوکہ دے گا جب تجھے اس کی بہت ضرورت ہوگی، دوسرا جھوٹا آدمی، کہ وہ دور کو قریب ظاہر کرے گا اور قریب کو دور اور تیسرا فاسق آدمی کیونکہ وہ تجھے ایک لقمہ کے بدلے یا ایک لقمہ سے بھی کم میں بیچے دے گا، کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا ابو! ایک لقمہ میں بیچنا تو سمجھ میں آتا ہے ایک لقمہ سے بھی کم بیچنے کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا کہ وہ تمہیں ایک لقمہ کی امید پر بیچ دے گا اور چوتھا قطع رحمی کرنے والا آدمی کیونکہ میں نے قرآن پاک میں کئی جگہ اس پر لعنت دیکھی ہے۔ یہ باپ کی صحبت کے انمول موتی تھے جو بیٹے کو مل رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن گائوں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ہوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آجاتی، سارے لوگ خوفزدہ ہوگئے کہ اندر ضرور کوئی جن جناب ہے جو یہ حرکت کرتا ہے، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گائوں والوں کی مصیبت کے ازالے کیلئے یہ قربانی دینے کو تیار ہے مگر ایک شرط پر، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ہو، اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بنے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا، اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ہوا ہے جو ڈول سے فوراً رسی کھول دیتا ہے، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا، اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ہوگیا، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا، گائوں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوگئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ہے اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ہے، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رہا تاکہ وہ کنارے تک پہنچ گیا، کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی انہونی ہوگئی تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی، یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں، ان کی قدر کریں۔
٭٭٭

















