قابل داد اور لائق تحسین!!!

0
31
شبیر گُل

اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق بہترین انداز میں کی، اس کی تربیت کے لئے انبیا علیہہ سلام مبعوث فرمائے۔ معاشرہ کی آبیاری کے لئے اخلاقی قدریں اور زندگی کے اسلوب سکھلائے گزشتہ روز جماعت اسلامی کا ایک بڑا اجتماع مینار پاکستان کے سائے تلے منعقد ہوا۔ جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ مرد اور ایک لاکھ سے زائد خواتین تین روز تک اجتماع میں شریک رہے۔بیالیس ممالک کی اسلامی تحریکات کے رہنما اجتماع عام میں شریک ہوئے۔ اس اجتماع کی خوبصورتی یہ تھی کہ بھائی چارے، عزت و احترام اور اخلاقی قدروں کو چشم فلک نے بہت قریب سے دیکھا۔ نظم و ضبط اور شرم وحیا کو دیکھا۔ جماعت اسلامی کا خاصا ہے کہ جلسہ ہو یاجلوس۔ ریلی ہو یا اجتماع۔ صفائی ستھرائی کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ بیٹوں اور بہنوں کو عزت و آبرو اور احترام دیا جاتا ۔ اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کا اجتماع ، جہاں انتہائی ڈسپلن اور مثالی نظم وضبط کا اہتمام۔ یہ واقعی قابل داد اور لائق تحسین ہے۔ اس عظیم الشان اجتماع عام کے ناظم ،جناب لیاقت بلوچ صاحب اور انکی ٹیم تھی جو واقعی مبارکباد کی مستحق ہے۔ فاروق بیگ لکھتے ہیں کہ !
جماعت اسلامی کا حالیہ اجتماعِ عام ایک نہایت منظم، باوقار اور بابرکت پروگرام تھا، خاص طور پر خواتین کے لیے الگ جگہ ،ایک خاص تنگ نظر طبقہ اسلام اسلام کرتا ہے ان کو بتانا تھا۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ دعوت کا دروازہ کھلا رہے، دل کشادہ رہیں اور نظر وسیع ہو۔ اس اجتماع میں .99.9 خواتین کے پردے اور نظم کی وجہ سے قابلِ تعریف تھا۔جس میں دعوت بھی تھی، جماعت اسلامی کا فیوچر پروگرام تھا، خدمت خلق پر جیکٹ بھی تھا۔ اور آئیندہ نوجوان نسل کے لئے لائحہ عمل بھی۔ جماعت اسلامی میں ہر خاص و عام کو دعوت دی گئی۔ کیونکہ دعوت دروازے کھولنے کا نام ہے، بند کرنے کا نہیں۔ جناب ڈاکٹر زبیری صاحب لکھتے ہیں کہ حیرت ہے واقعی سخت حیرت ہے ایک بڑے ٹی وی چینل کا رپورٹر بولا میں نے مسکرا کر پوچھا کیا ہوا۔ کہنے لگا پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے بڑے جلسے بھی کور کئے ہیں خواتین کو خاردار تاروں کی اونچی باڑوں کے درمیان رکھا جاتا ہے مگر ٹائیگر یہ باڑیں کاٹ کر ان کے ایریا میں کود پڑتے ہیں اور پھر خواتین کو ان بھیڑیوں سے بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اور ایک یہ لاکھوں کا ایونٹ ہے خواتین پنڈال میں بس ایک سادہ سی حد بندی کے فاصلے پر بیٹھی ہیں ادھر ادھر پھر رہی ہیں مرد نظریں جھکا کر ،سمٹ کر ،احترام سے راستہ دے رہے ہیں اور وہ خود کو ہر طرح سے محفوظ اور معزز سمجھ رہی ہیں۔ میں نے کہا بس یہی فرق ہے۔ مرشد مودودی نے اس تحریک کے افراد کی تربیت کرکے انہیں انسان بنایا ہے جب کہ دوسروں نے انہیں ٹائیگر اور شیر بنا کر حیوان بنایا ہے۔ جناب سہیل آرائیں لکھتے ہیں کہ ! ہے کوئی جماعت اسلامی جیسا! یہ منظر محض ایک تصویر نہیں، ایک پوری تحریک کے مزاج اور اس کے رہنماں کے باطن کی جھلک ہے۔ زمین پر بچھی ایک سادہ سے دری پر سویا ہوا یہ شخص امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان خافظ نعیم الرحمن، لیاقت بلوچ،امیر العظیم ،پروفیسر ابراہیم، کراچی، منعم ظفر ہے۔وہ چاہتے تو بہت سی دوسری جماعتوں کے قائدین کی طرح اپنے کارکنان کو جلسہ گاہ میں چھوڑ کر کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے نرم گداز بستر پر رات گزار لیتے۔ لیکن انہوں نے وہ راستہ چنا جہاں فرشِ خاک ہی بستر بنتا ہے اور آسمان ہی چھت۔ یہی وہ وصف ہے جو جماعتِ اسلامی کو باقی رہنماوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہاں قیادت اپنے کارکنوں سے دور، بلند دیواروں کے پیچھے، شاہانہ پروٹوکولوں کے سائے میں نہیں رہتی۔ یہ رہنما وہ لوگ ہیں جو اپنے کارکنان کے درمیان بیٹھتے ہیں، انہی کے ساتھ سوتے ہیں، انہی کے دکھ سکھ میں شامل ہوتے ہیں،انہی کے ساتھ وہی سادہ غذا کھاتے ہیں۔ اور انہی کے ساتھ چلتے ہیں۔ اسی اجتماع میں جماعت کے دیگر ذمہ داران بھی دریاں بچھائے، کھردری زمین پر وہی آرام کر رہے ہیں جو ان کے رفقا کر رہے ہیں۔ اپ کو کہیں حافظ نعیم بیٹھا نظر ائے گا تو کہیں زمین پر جائے نماز بچھائے اس اجتماع کا منتظم لیاقت بلوچ نماز پڑھتا ملے گا۔ ۔۔ کہیں مولانا ھدایت بلوچ ، تو کہیں زمین پر بیٹھا سندھ اسمبلی کا ایم پی اے محمد فاروق خان پھر کارکنان کے ساتھ نعرے لگاتا بلوچستان اسمبلی کا رکن عبدالمجید بادینی۔ عجز و انکساری کے خوگر۔ یہ ہیں جماعتِ اسلامی کے رھنما۔ نہ کوئی امتیاز، نہ کوئی فاصلے۔ لیڈر اور کارکن ایک ہی صف میں، ایک ہی مقصد پر، ایک ہی سایے میں۔
جماعتِ اسلامی کی اصل خوبصورتی یہی ہے! یہاں قیادت بڑائی کی کرسیوں پر نہیں، بلکہ خاکساری کی زمین پر نظر آتی ہے۔ اور جس قیادت میں یہ سادگی، یہ یکجہتی اور یہ وابستگی ہو وہ دلوں پر حکومت کرتی ہے، مسندوں پر نہیں۔ یہاں کارکنان بھی اپنی قیادت کے اس وصف کی وجہ سے ان سے محبت کرتے ہیں نہ کہ کسی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے۔ یہ کہتے ہیں کہ اخے جماعت اسلامی کو جلسے اور اجتماع کرنے کی اجازت کیوں مل جاتی ہے ؟؟
جناب کیونکہ جماعت اسلامی پاکستان کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنا وطن سمجھتی ہے یہ نہیں کہ جب اوپر والے کرسی دے دیں تو تب ملک اپنا۔ اگر انکے ابا جی کرسی چھین لیں ،تو احتجاج کی آڑ میں سرکاری اور پرائیوٹ املاک کو نقصان پہنچانا۔جلسے جلوسوں میں پاکستان کو دشمن ملک سمجھ کر توڑ پھوڑ ۔ شاید یہ لوگ اس کام کو ثواب کا کام سمجھ کر کرتے ہوں۔اور تنقید جماعت اسلامی پر۔ لہذا جناب یاد رکھیں جماعت اسلامی کے پاس حکومت ہو یا نا ہو۔ہمارے لئے ہمارا ملک ہمیشہ ہمار ا وطن ہے۔ ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں جس جگہ جلسہ کی اجازت ہوتی ہے وہاں پھر صرف مرد ہی نہیں ،جماعت اسلامی کی خواتین بھی اس جگہ کو اپنا گھر سمجھ کر صاف کرکے جاتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے جلسوں کو موازنہ کسی لچے کفنگے کے جلسوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں بیٹوں اور بہنوں کی عزت مخفوظ نہ ہو۔
آپ لوگ سوال اٹھانے سے قبل پہلے شخصیت پرستی اور غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں۔ حب الوطنی اور نظم و ضبط کے اوصاف پیدا کر لو ،تو پھر اجازت دینے یا نا دینے پر بات کر لینا۔ جنہیں حکومت فوجیوں کے تلوے چاٹنے پر ملی ہو۔ جو انکے گملوں کی پیداوار ہوں۔ جو انہیں باپ کہتے ہوں۔ وہ جماعت اسلامی کو طعنہ کیا دینگے۔ پی ٹی آئی اور اسکے لونڈے لپاڑوں کو خافظ نعیم اور جماعت اسلامی سے تکلیف اس لئے ہے کہ انہوں نے صرف ایک سوال پوچھا تھا کہ اڈیالہ سے ٹویٹ ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کیوں نہیں ہوسکتی۔ اس پر پی ٹی آئی کے دائیں بائیں کے صحافی مخانوں کے پیٹ میں مڑوڑ کا اٹھنا اور چیں چیں کرنا قابل غور ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ( گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے)۔ توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچیں یا ڈائمنڈ کے سیٹ تخفہ میں لیں۔ انکے ابا کا مال ہے کہ !
انہیں کوئی نہ پوچ۔ لونڈوں کا ابا دنیا کے ہر واقعہ پر ٹویٹ توکرے۔ مگر فلسطین پر ٹویٹ کرنا گراں گزرے۔ لونڈے لپاڑے دوسروں پر تو تنقید کرتے ہیں۔ لیکن زرا اپنی منجی تھلے بھی ڈانگ پھیر لیا کریں۔ آجکل پی ٹی آئی کے دم چھلے صحافیوں کو نہ ملک میں دہشتگردی نظر آئی رہی ہے نہ عوامی مسائل نظر آرہے ہیں۔ نہ بیرونی خطرات نظر آتے ہیں انہیں صرف عمران خان کو اخبار نہیں ملا۔ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی کو اڈیالہ جانے کی اجازت نہیں ملی۔وزیرا اعلی خیبر پختونخواہ اب اٹھ گیا ۔ ابھی بیٹھ گیا ہے۔ اب پیٹھ کجھا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے ایک دوست میرے سے بحث کررہے تھے کہ ملڑی اسٹبلشمنٹ پی ٹی آئی کو سانس نہیں لینے دے رہی۔ میں کہا جناب آپ روزانہ کہتے تھے کہ آج اتنے لوگ ن لیگ چھوڑ کر آگئے۔ آج اتنے لوگ عمران خان سے مل گئے۔ وغیرہ ،وغیرہ۔ شائد آپکو یاد نہ ہو جنرل فیض اور اسکے بندے گھیر گھیر لوگوں کے گلے میں پی ٹی آئی کا پٹہ ڈال رہے تہے۔ اس وقت تو خوشی خوشی آم چوپے جارہے تھے۔
بھائی جان آم چوپنے کی قیمت بھی تو ادا کرنا پڑے گی۔ جب راتوں رات آسمان سے ٹپکیں گے تو پھر خطرات بھی ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے سیانے کہتے ہیں وردی والوں سے نہ دوستی اچھی اور نہ دشمنی اچھی۔ ارے او بھائی لوگو!۔ تے فیر ہور چوپو۔ تے ہور گاجراں کھا۔ جناں کھادیاں گاجراں تے ٹیڈ انہاں دے پیڑ
جب یاری اسٹبلشمنٹ اور فیض حمید اور جنرل پاشا سے ہوگی۔ تو پھر قیمت بھی تو ادا کرنا پڑے گی۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ( مٹھا مٹھا ہپ ہپ تے کڑوا کڑوا تھو تھو) نواز شریف نے بھی گاجریں کھا کردیکھ لی ہیں۔ جس جس نے بوٹ پالیشی کی ہے۔ وہ اسکا خمیازہ تو ضرور بھگتے گا۔ سندھ میں ایک پیر صاحب ہیں جن کا نام جوتوں والی سرکار ہے۔ انکے ہاں جو کوئی بھی فیض حاصل کرنے جاتا ہے۔ پہلے اسکی پیٹھ پر پیر صاحب خود بوٹ رسید کرتے ہیں۔
تو جناب والا !۔ آپ پورا جنرل فیض حمید حاصل کریں اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ بغیر جوتے کے۔ ؟
جماعت اسلامی پر تنقید کرنے والے سن لیں۔ جماعت اسلامی مختلف پارٹیوں کا کچرا اور تعفن نہیں ہے کہ کسی کی بلاوجہ تنقید پر ، یا کسی کے دبکے پر گھر بیٹھ جائیں۔ جماعت اسلامی کے کارکن نظریاتی۔ محب وطن اور مملکت پر جان چھڑکنے والے لوگ ہیں۔ انکی ایک تاریخ ۔ ابھی کل ہی کی تو بات جسے چشم فلک نے دیکھا۔ قربانیوں کی لازوال داستانیں ہیں۔ گذشتہ پچاس سال میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کئی ہزار شہادتیں وصول کرچکی ۔ مگراسکے پایاں استقلال میں نہ کمزوری دیکھی گئی۔ نہ وہ جھکی۔ نہ وہ ڈری اور نہ ہی کوئی کمپائز کیا۔ یہ سید مودودی کی تحریک ہے جسے قادیانی مسئلہ لکھنے پر پھانسی کی سزا ہوئی اور سید مودودی نے اسے خوشدلی سے قبول کیا۔ آج چند باڑے کے ٹٹو صحافی تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے موازنہ کرتے ہیں۔ یہ تحریک نہ شخصیت پرستی کی تحریک ہے اور نہ کرپٹ عناصر کی بیہودہ تحریک۔ یہ انسانوں کی تحریک ہے نہ کہ جانوروں کی۔ یہ رسول اللہ صلی الشبیر گُل
لہ علیہ وسلم کی حرمت کے متوالوں کی تحریک ہے۔ محب وطن اور نظریاتی افراد کی جماعت ۔ اسکا موازنہ جھوٹوں ، دغابازوں، اقتدار کے بھوکے لفنگوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی کے یوتھئیے اپنی اوقات میں ہی رہیں تو بہتر ہے۔ ہم نے سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں کو۔ ان سے بڑے فرعونوں اور ابو جاہلوں کو بھی دیکھا ہے۔ آپ کی اوقات گنگو تیلی سے زیادہ نہیں۔ لہٰذا اپنا گٹر۔ اپنا تعفن اور بدبودار ذہنیت اپنے تک ہی محدود رکھیں جو انکے لئے بہتر ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here