پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہیں آنے والے برسوں میں شدید آبی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کئی سالوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر پانی کے ذخائر میں اضافہ، پانی کے استعمال میں شفاف نظم و نسق اور موسمیاتی تغیرات کے اثرات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ملک کے بڑے شہر ہی نہیں، زرعی علاقے بھی شدید متاثر ہوں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کے ماہر اداروں نے بارہا اپنی رپورٹس میں مستقبل کے خطرات کی نشاندہی کی، مگر ان سفارشات پر کوئی مثر توجہ نہیں دی گئی۔پاکستان کی مجموعی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر کھڑی ہے، اور زراعت کا انحصار 100 فیصد پانی پر ہے۔ بڑے ڈیم گزشتہ کئی دہائیوں میں تعمیر نہیں ہو سکے، جبکہ موجودہ ڈیموں کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مسلسل کم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، شہروں میں پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور زرعی علاقوں میں پانی کی تقسیم پر تنازعات بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پانی کے معاملے کو صرف ایک تکنیکی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنا نہایت خطرناک ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کے بحران کا تعلق صرف موسمیاتی تبدیلی سے نہیں بلکہ حکومتی ترجیحات اور انتظامی ناکامیوں سے بھی ہے۔ ملک میں سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش اور سیاسی مفادات کو تو ترجیح دیتی ہیں لیکن عوامی مفادات کے ان اہم ترین مسائل پر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں جن پر براہِ راست قوم کے مستقبل کا انحصار ہے۔ پچھلی کئی حکومتوں نے آبی وسائل کے ماہرین کی رپورٹس کا جائزہ تو لیا لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آبی ماہرین نے کم از کم بیس برس قبل حکومت کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے بڑے ذخائر کی تعمیر، پرانے نہری نظام کی بحالی اور بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبوں پر زور دیا تھا، مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ آج بھی پاکستان صرف چند ہفتوں کے سٹریٹیجک پانی کے ذخائر رکھتا ہے۔ ایسے کمزور ذخائر کسی بھی خشک سالی، کم برف باری یا نہری بہا میں کمی کے نتیجے میں ملک کو فوری بحران میں دھکیل سکتے ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کے شعبے میں پالیسی کی عدم تسلسل ہے۔ ہر حکومت اپنے دور میں نئے منصوبوں کے دعوے تو کرتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد اگلی حکومت کے آنے تک فائلوں میں دب جاتا ہے۔ واٹر مینجمنٹ میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، لیکیج کنٹرول، شہری پانی کی ری سائیکلنگ اور زرعی سسٹم میں پانی کے ضیاع کو روکنے جیسے اقدامات دنیا بھر میں معمول ہیں، مگر پاکستان میں یہ نظام ابھی تک ابتدائی مرحلے تک محدود ہیں۔آبادی میں اضافہ، صنعتی سرگرمیوں میں وسعت اور زیرِ زمین پانی کے بے دریغ استعمال نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کئی بڑے شہروں میں زیرِ زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، جس کا نتیجہ مستقبل میں شدید قلت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پانی کے مسئلے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھ کر ہنگامی بنیادوں پر حکمتِ عملی وضع کرے۔ اس کے بغیر نہ زراعت محفوظ رہ سکتی ہے اور نہ شہری زندگی کا نظام۔پاکستان کے عوام بھی اس حقیقت کو سمجھیں کہ پانی صرف حکومتی نہیں، قومی ذمہ داری ہے۔ گھریلو اور زرعی سطح پر پانی کے فضول استعمال کو روکنا ہوگا۔ اگر حکومت اور عوام مل کر ٹھوس فیصلے نہ کریں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو ایک ایسے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے جو معیشت، سماج اور روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کرے گا۔ملک کے مستقبل کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ پانی کے بحران کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں، آج ذمہ داری سے اٹھایا جانے والا ایک قدم آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔
٭٭٭














