علامہ اقبال فرماتے ہیں!
تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟
زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟
آں کتاب ِ زندہ ،قرآن حکیم
حکمت ِاو لایزال است و قدیم
نسخہ اسرار ِ تکوینِ حیا
بے ثبات از قوتش گیرد
(اے مسلم)کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرا آئین کیا ہے؟ اور اس آسمان (دنیا)کے نیچے تیرا قیام اور تیری قدر اور عزت کا راز کیا ہے؟ ہا ں تیرا دستور وہ زندہ کتاب ہے جو قرآن حکیم کے نام سے معروف ہے، اس کی حکمتیں ابتدائے آفرینش سے مسلم چلی آرہی ہیں اور انہیں کبھی زوال نہ آئے گا- قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کے وجود پذیر ہونے کے راز بتاتی ہے، اس کی قوت سے ناپائیدار/ فانی بھی پائیداری/بقاحاصل کرلیتی ہے-
اس دنیا میں، ہمارے پیارے ملک پاکستان جیسا شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہوگا جہاں بسنے والے انسانوں کی بھاری اکثریت اللہ اور اس کے رسولوں پر یقینِ کامل رکھنے والے ایسے افراد کی ہے جو دینِ اسلام کے لئے ہر لمحے اپنی جان تک قربان کیلئے تیار رہتے ہیں۔ جذبہ جہاد سے سرشار اس قوم سے دوست اور دشمن تمام ممالک ہر گھڑی خبردار اور ہوشیار رہتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے ممالک، کوششوں کے باوجود، پاکستان جیسی بڑی فوج جو ایٹمی طاقت بھی رکھتی ہو، نہیں بنا پائے۔ اپنے سے چھ گنا بڑے پڑوسی دشمن کا ہر محاذ پر مسلسل کامیاب مقابلہ کرتے رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔سیاسی محاذ پر پاکستانیوں نے یورپی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے صرف دو سال بعد ہی، اپنی دستورساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد منظور کی۔ اس قرارداد کی رو سے پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلامی جمہوریت پر استوار کرنا طے ہوا۔ساتھ ساتھ، اتحادِ امت کیلئے بھی زبردست جدوجہد کا آغاز کیا گیا اور میں سید مودودی کی قیادت میں اکتیس علما نے بائیس نکات پر مشتمل ایک پروگرام وضع کیا جسے بعد ازاں دستور کی اساس بنایا گیا۔بین الاقوامی مداخلتوں کی وجہ سے ہماری بدقسمتی کہ پاکستان کے آئین پر کئی شبخون مارے گئے، جس کی وجہ سے ملک دولخت بھی ہو گیا لیکن مجموعی طور پر ہماری قوم کا اسلامی جمہوری مزاج برقرار رہا اور پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنی کشتی کو منجھدار سے نکالے جانے کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔ پچھلے دو تین سال سے ہم ایک مرتبہ پھر سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا کے جدید دور میں نئی نسل، بند کمروں میں کئے جانے والے فیصلوں کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں۔ اشرافیہ کی کرپشن کے زیرِ سایہ غریب سے غریب تر ہونے والے مظلوم و مجبور افراد، اب آزادی کے خواہاں ہیں۔ بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے اس نعرے کو عسکری قوتیں، بغاوت سمجھ رہی ہیں۔ عام لوگوں کا، عسکری قوتوں کا ساتھ دینے والی، مذہبی جماعتوں کی قیادت پر بھی سیاسی اعتماد ختم ہورہا ہے۔ اپنے اقتدار کو حبِ وطنی کا تقاضا سمجھتے ہوئے، عدالتی نظام کو بھی کمزور کردیا گیا ہے۔ گھٹن کے اس ماحول سے نکلنا، ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے ورنہ خدانخواستہ کسی بڑے حادثے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ان تکلیف دہ حالات میں، جماعتِ اسلامی پاکستان کے اجتماعِ عام کا انعقاد امید کی وہ کرن ہے، جس کیلئے ساری قوم ایک طویل عرصے سے منتظر تھی۔ متوازن سوچ کے ساتھ، نئی نسل کی ترجمانی کرتے ہوئے، لاکھوں افراد کا مینارِپاکستان کے ارد گرد جمع ہونا، تمام پاکستانیوں کیلئے، ایک بہت بڑی نعمت سے کسی طور کم نہیں۔ اس تاریخی اجتماع کے مثبت اثرات بہت جلد ظاہر ہوں گے۔ اللہ کرے، پاکستان کے سارے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے بنیادی فرائض انجام دیں اور بے جا بین الاقوامی مداخلتوں سے متاثر نہ ہوں تاکہ غریبوں کی غربت سے نجات حاصل کی جا سکے اور اشرافیہ کی ریشہ دوانیوں کا بر وقت تدارک ہو سکے۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنے آئین کی جانب واپس جاکر اسے مزید مظبوط کرنا پڑے گا۔ آئین پر عمل نہ ہونا اور عام لوگوں کا اس عمرانی معاہدہ پر سے اعتماد کا ختم ہوجانا، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر لے گا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہی قائم رہے۔
اب آئے گا اس ملک میں اسلام کا دستور
میرا قرآن ہے میرا منشور
٭٭٭














