میثاق جمہوریت میں آئینی عدالتوں پر عمران خان سمیت سب جماعتوں کا ایکا تھا مگر ان آئنی عدالتوں کے قیام کے لیے کس آئین اور قانون کا سہارہ لیا گیا جسے بری طرح روند ڈالا گیا جمہوریت میں جمہور کا مطلب ہوتا ہے عوام اور جمہوریت عوام کی لائی ہوئی حکومت ہوتی ہیں جس میں عوام کی مرضی چلتی ہے پر عوام کے منتخب نمائندوں کو تو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے ایک ایم این اے کے حلقہ میں دس ہزار کی لیڈ سے جیتنے والے نون لیگ کے مخالف نے اسے چیلنج کیا تو اس حلقہ کی دوبارہ کانٹنگ ہوئی جس میں اس کے چودہ ہزار ووٹ غلط قرار دیکر نون لیگ کے امیدوار کو جتوا دیا گیا فارم پینتالیس والے کیسز کا فیصلہ نہیں ہونے دیا گیا اور جن کا ہوا ان میں فارم پینتالیس دیکھے بغیر بس کسی نہ کسی اور آڑ لیکر فیصلہ نون یا پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حق میں دے دیا گیا پی ٹی آئی کا انتخابی نشان تک چھین لیا گیا پر وہ بینگن ٹرک اور جیپ کے نشانوں پر بھی جیت گئے مگر انہیں دھاندلی سے ہروا دیا گیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ گر دانتے ہوئے ان کی مخصوص نشستیں چھین کر بندر بانٹ کے زریعے حکومتی بینچوں کو دے دی گئیں نو مئی کے فالس فلیگ اوپریشن میں سزا کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں پی ٹی آئی کے کئی ممبرز نااہل قرار دے دیے گئے نہ آئین میں دی گئی مدت پر الیکشن ہوئے نہ الیکشن کمیشن نے عدالتوں کی بات مانی اور تو اور تین مہینے کی کیئر ٹیکر حکومت کو کس آئین کی تحت نو مہینے تک چلنے دیا گیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے نومینیسن پیپرز تاج جمع کروانے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور پھر جب آئینی ترامیم ہوئیں تو ممبر قومی اسمبلی یا ان کے لواحقین کو اغوا کر کے زبردستی یا لالچ کے زریعے ترامیم کے حق میں ووٹ دلوائے گئے منظوری تو ہونی تھی سابق وزیر اعظم عمران خان کی القادر یونیورسٹی کیس میں قید کی سزا کو چیلنج کرنے کے لیے کسی عدالت میں اپیل ہی لگنے نہیں دی جا رہی کس آئین اور قانون کے تحت اس کے میل ملاقاتیوں کو عدالتی حکم کے باوجود خان سے ملنے کی صورت نہیں نکل رہی کون سا قانون اور آئین اجازت دیتا ہے جبکہ انیس سو تہتر کے آئین کے تحت کوئی بھی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو اسلامی شعائر کے مخالف بنا ہواور اسلام کسی کو استثنی نہیں دیتا جزا اور سزا کا حکم ہے اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرتی تو ہاتھ ضرور کٹتے یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں بھول گئے شاید اسی لیے جسٹس ریٹائر جواد ایس خواجہ نے ستائسویں آئینی ترمیم کر چیلنج کر دیا ہے لیکن ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ ہوگا کچھ نہیں ڈنڈے کے آگے کس کا زور چلتا پنجابی کا محاورہ ہے کہ رب نیڑے کہ کسن مطلب اللہ نزدیک ہے یا گھونسا تو سب کو معلوم ہے کی یہ ترامیم کیوں اور کس لیے کی جارہی ہیں ان کی آڑ میں کیا گل کھلائے جائیں گے اور کن کن کو فائدہ اور کن کو نقصان پہنچے گا اگر ترمیم ہی کرنی تھی تو کھل کر آرمی چیف کو کابینہ کا حصہ بناتے تاکہ کارکردگی کا بھی پتا چلتا۔ مگر ان سب کے لیے بھی سب سے پہلے ایک ایسی الیکٹورل باڈی تشکیل دینا از حد ضروری تھا کہ جس پر انگلی اٹھانے کی جرات کسی ایک مخالف کو بھی نہ ہوتی کاش کہ ایسا ہوتا۔
٭٭٭















