فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! نبی پاک ۖ پر درود شریف پڑھنا بہت بڑی سعادت ونیک بختی ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا سمیٹنا ہے کاروبار میں برکت وفرافی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ دنیاوی مصیبتوں اور پریشانیوں کا دفیعہ ہے۔ اس سلسلہ میں بزرگان دین عاملین مکاملین کے بہت سارے واقعات ان مذکورہ دعووں کی دلیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چند کا ذکر کیا جاتا ہے کس شخص نے کسی دوست سے تین ہزار دینار قرض لیا اور واپسی کی تاریخ مقرر ہوگئی مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اس مقروض شخص کا کاروبار معطل ہوگیا اور وہ بالکل کنگال ہو کر رہ گیا۔ قرض لینے والے شخص یعنی مالک نے تاریخ مقررہ پر پہنچ کر قرضہ کی واپسی کا مطالبہ کردیا اس مقروض نے معذرت چاہی کہ بھائی میں مجبور ہوں میرے پاس کوئی مال نہیں ہے۔ قرض خواہ نے قاضی کے پاس جا کر دعویٰ دائر کردیا۔ قاضی صاحب نے اس مقروض شخص کو طلب کیا اور سماعت کے بعد اسے ایک ماہ کی مہلت دی اور فرمایا: اس قرضہ کی واپسی کا انتظام کرو مقروض عدالت سے باہر آیا اور سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ الحاصل ہونے عاجزی اور زاری کے ساتھ مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر درود پاک پڑھنا شروع کردیا جب ستائیس دن گزر گئے تو اسے رات کو ایک خواب دکھائی دیا کوئی کہن والا کہتا ہے: اے بندے! تو پریشان نہ ہو اللہ تعالیٰ کار ساز ہے چاہیں فرمایا: جب میں بیدار ہوا تو بڑا خوشحال تھا پریشانی ختم ہوچکی تھی لیکن یہ خیال آیا کہ اگر وزیر صاحب کوئی دلیل یا نشانی طلب کریں تو میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسری رات ہوئی جب آنکھ سو گئی تو قسمت جاگ اٹھی۔ مجھے آقائے دو جہاں رحمت دو عالم شفیع اعظم ۖ کا دیدار نصیب ہوا۔ آپ ۖ نے بھی علی بن عیٰسی وزیر کے پاس جانے کا ارشاد فرمایا: جب آنکھ کھلی تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ تیسری رات پھر امت کے والی ۖ تشریف لاتے ہیں پھر حکم فرماتے ہیں کہ علی بن عیٰسی وزیر مملکت کے پاس جائو اور اسے یہ فرمان سنا دو۔ عرض کیا: یارسول اللہ ۖ میں کوئی دلیل چاہتا ہوں۔ یہ سن کر حضور ۖ نے میری گزارش کی تحسین فرمائی اور فرمایا: اگر وزیر تجھ سے کوئی علامت طلب کرے تو کہہ دینا کہ اس کی سچائی کی علامت یہ ہے کہ آپ نماز فجر کے بعد کسی کے ساتھ کلاں کرنے سے پہلے پانچ ہزار درود پاک کا حضہ دربار رسالت میں پیش کرتے ہو جسے اللہ تعالیٰ اور کراما کا تبین کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ فرما کر سیّد دو عالم ۖ تشریف لے گئے ہیں۔ بیدار ہوا۔ نماز فجر کے بعد مسجد سے باہر قدر رکھا اور آج پورا مہینہ ہوچکا تھا۔ میں وزیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا اور وزیر صاحب سے سارا قصہ بیان کیا۔ جب وزیر صاحب نے کوئی دلیل طلب کی تو میں نے حضور سرور کائنات ۖ کا ارشاد سنایا تو وزیر صاحت خوشی اور مسرت سے چمک اٹھے اور فرمایا: مرحباً برسول اللہ حقاً اور پھر وزیر صاحب اندر گئے اور نو ہزار دینار لے آگئے۔ ان میں سے تین ہزار گن کر میری جھولی میں ڈال دیئے اور فرمایا: یہ تین ہزار قرضہ کی ادائیگی کے لئے اور پھر تین ہزار اور دیئے کہ یہ تیرے بال بچے کا خرچ اور پھر تین ہزار اور دیئے اور فرمایا: یہ تیرے کاروبار کیلئے اور ساتھ ہی الوداع کرتے وقت قسم دے کر کہا: اے بھائی تو میرا دینی اور ایمانی بھائی ہے۔ خدارا یہ تعلق ومحبت نہ توڑنا اور جب بھی آپ کو کوئی کام ، کوئی حاجت درپیش ہو بلا روک و ٹوک آجانا میں آپ کے کام دل وجان سے کیا کروںگا فرمایا: میں وہ رقم لے کر سیدھا قاضی صاحب کی عدالت میں پہنچ گیا اور جب فریقین کو بلادا ہوا تو میں قاضی صاحب کے ہاں پہنچا اور دیکھا کہ قرض خواہ کھڑا ہے۔ میں نے تین ہزار دینار گن کر قاضی صاحب کو دے دیئے۔ اب قاضی صاحب نے سوال کردیا کہ بتائو یہ اتنی دولت کہاں سے لے کر آیا ہے؟ حالانکہع تو تو مفلس اور کنگال تھا میں نے سارا واقعہ بیان کردیا قاضی صاحب یہ سن کر خاموشی سے اٹھ کر اندر گئے اور تین ہزار دینار لے کر آگئے اور فرمایا: ساری برکتیں وزیر صاحب ہی کیوں لوٹ لیں میں بھی تو اسی سرکار کا غلام ہوں۔ تیرا یہ قرضہ میں ادا کرتا ہوں جب قرض خواہ نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ بولا کہ ساری رحمتیں تم لوگ ہی کیوں سمیٹ لو میں بھی ان کی رحمت کا حقدار ہوں یہ کہہ کراس نے تحریم کردیا کہ میں نے اس کا قرضہ اللہ و رسول جل جلالہ وۖ کے لئے معاف کردیا پھر مقروض نے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ کا شکریہ آپ اپنی رقم لیجئے اور سنبھال لیجئے تو قاضی صاحب نے فرمایا: اللہ اور رسول ۖ کے نام پر جو مینار آپ کو دے دیئے وہ آپ کے ہیں۔ اب واپس نہیں لونگا تو میں بارہ ہزار دینار لے کر گھر آگیا۔ قرضہ بھی معاف ہوگیا۔ برکت ساری کی ساری درود شریف کی ہے( جذب القلوب) ایک مرتبہ چند کافر ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک سائل آیا اور اس نے ان سے کچھ سوال کیا۔ انہوں نے تمسخر کے طور پر کہہ دیا کہ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جلو وہ تمہیں کچھ دیں گے۔ سائل جب مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اللہ! مجھے کچھ دیجئے، تنگدست ہوں آپ کے پاس اس وقت بظاہر کچھ نہ تھا۔ لیکن فراست سے جان گئے کہ کافروں نے تمسخر کے لئے بھیجا ہے۔ آپ نے دس بار درود پاک پڑھ کر سائل کی ہتھیلی پر بھونک مار کر فرمایا: ہتھیلی کو بند کر لو اور وہاں جاکر کھولنا جب سائل کافروں کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: تجھے کیا ملا ہے؟ اس نے مٹھی کھولی تو سونے کے دیناروں سے بھری ہوئی تھی یہ دیکھ کر کئی کافر مسلمان ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭













